آیت 35
 

قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ ؕ قُلِ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ لِلۡحَقِّ ؕ اَفَمَنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ یُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا یَہِدِّیۡۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّہۡدٰی ۚ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ کہدیجئے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ کہدیجئے: حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟

تفسیر آیات

وحدت ربوبیت و عبادت پر ایک اور بین دلیل ہدایت ہے۔ معبود وہ ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہدایت ہو۔ مشرکین اللہ کے مقام خالقیت کو مانتے تھے۔ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہدایت، خلقت کا لازمہ ہے۔ ہدایت کے بغیر غرض تخلیق پوری نہیں ہوتی بلکہ ہدایت کے بغیر تخلیق عبث ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خلقت اور ہدایت، ایک دوسرے سے جد انہیں ہو سکتیں:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی (۲۰ طہٰ: ۵۰)

موسی نے کہا:ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

چنانچہ ہر مخلوق کی زندگی کی ضروریات اور طریقہ حیات و تولید نسل کی ہدایات اس کی فطرت میں ودیعت کر دی ہیں۔

انسان کی ہدایت کا انتظام تو خالق نے اس کی تخلیق سے پہلے فرمایا۔ چنانچہ احادیث: اول ما خلق اللہ نوری ۔ ( عوالی اللالی ۴:۹۹) اور لو لاک لما خلقت الافلاک ۔ ( بحار الانوار ۱۶: ۴۰۵) شاہد ہیں اور اس روئے زمین پر کسی امت کے بسانے سے پہلے ایک نبی، حضرت آدم (ع) کو بسایا۔

تمام عقلاء کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ حق (جو امر واقع کو کہتے ہیں) کی اتباع کرنی چاہیے۔ حق کیا ہے؟ اس میں لوگوں میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن حق کی اتباع ضروری ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس آیت میں حسب ذیل حقائق بیان کیے گئے ہیں :

i۔ مشرکین کے بنائے ہوئے شریک، حق کی راہنمائی نہیں کرتے۔ کبھی ان شریکوں نے انسان کی ہدایت کے لیے کوئی بنی بھیجا ہے اور نہ کوئی کتاب نازل کی ہے، نہ کوئی شریعت بیان کی ہے

ii۔ اللہ حق کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

iii۔ جو حق کی راہنمائی کرتا ہے اس کی اتباع ضروری ہے۔ اس کی اتباع نہیں جو خود راہنمائی کا محتاج ہے۔ یہاں تقابل، ہدایت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں نہیں ہے بلکہ ہدایت کرنے والے اور ہدایت کا محتاج ہونے والے میں تقابل ہے۔ دوسرے لفظوں میں خود منبع ہدایت اور محتاج ہدایت کے درمیان تقابل ہے۔ اس تقابل کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اتباع کیا اس ذات کی ہونی چاہیے جو منبع ہدایت ہے یا اس کی جس کے پاس بذات خود ہدایت نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی ہدایت آبھی جائے تو وہ بھی اسی منبع ہدایت سے آئی ہو گی۔

لہٰذا اگر ہدایت کا سلسلہ، منبع ہدایت تک پہنچ جائے تو حق تک رسائی ہو گی۔ جیسے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی طرف سے جو ہدایت ملتی ہے وہ اللہ کی ذات پر منتہی ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا بلکہ منبع ہدات کے مقابلے میں ایک اور سلسلہ قائم کیا جسے شرک کہتے ہیں تو یہ کبھی بھی حق تک رسائی کا ذریعہ نہیں بنے گا۔ اسی طرح وہ ہدایت جس میں یہ سلسلہ، انحراف اور ذاتی اجتہاد کی وجہ سے کٹ گیا ہو

قرآن کی یہ آواز کہ سر چشمۂ ہدایت صرف اللہ کی ذات ہے آج بھی فضائے عالم میں گونج رہی ہے اور قرآن کا یہ دائمی چیلنج ہے کہ اللہ کے سوا کوئی شخص، ادارہ یا جماعت انسان کو حق کی پر سکون آغوش میں نہیں بٹھا سکتی۔ کیا انسان کا ساختہ وبافتہ حقوق انسانی کا چارٹر یا دنیا بھر کے دانشور اور کئی نسلوں پر محیط طویل تجربہ رکھنے والے مفکرین انسان کو حق سے روشناس کراسکتے ہیں جس سے انسان کو دنیا میں امن و سکون اور آخرت میں نجات مل جائے؟ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی ہدایت وہ ہے جس کا سرا اللہ کی ذات سے ملتا ہو۔

۲۔ خلقت، عبادت اور ہدایت میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔


آیت 35