آیت 34
 

قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ قُلِ اللّٰہُ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ کہدیجئے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے؟ کہدیجئے: اللہ تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ: ابتدائے خلقت سے اعادہ خلقت کی طرف توجہ دلانا اس مقصد کے لیے ہے کہ عبادت اس ذات کی ہونی چاہیے جس کے ہاتھ میں جیسے ابتدائی خلقت ہے، اعادۂ خلقت بھی ہے۔

۲۔ قُلِ اللّٰہُ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ: مشرکین چونکہ اعادۂ خلقت اور معاد کو نہیں مانتے تھے اس لیے جواب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دینے کا حکم دیا: کہہ دیجیے: اللہ ہی خلقت کی ابتداء کرتا ہے اور اعادہ بھی کرتا ہے۔ لہٰذا مشرکین جو ابتدائے خلقت کو مانتے ہیں کہ یہ فعل خدا ہے، اعادہ خلقت کو بھی ماننا پڑے گا کہ اللہ اس پرقادر ہے۔ صرف ابتدائے خلقت سے خلقت کی حکمت پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی معقولیت کے بغیر اسے ادھورا چھوڑنے کے مترادف ہو گا اور یہ عدل الٰہی کے منافی ہے کہ اس حیات ارضی کے ساتھ زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کی ابتدا و انتہا اللہ کے ہاتھ میں ہے تو درمیان میں کوئی شریک کیسے دخیل ہو سکتا ہے۔


آیت 34