آیت 36
 

وَ مَا یَتَّبِعُ اَکۡثَرُہُمۡ اِلَّا ظَنًّا ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ ان میں سے اکثر محض ظن کی پیروی کرتے ہیں جب کہ ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا، اللہ ان کے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

تفسیر آیات

مشرکین اپنے مشرکانہ نظریات پر کوئی دلیل بھی تو نہیں رکھتے۔ ان کا عقیدہ صرف ظن و تخمین پر مبنی ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ہیں۔ اس بات پر وہ عقلی استدلال اور منطق سے دلیل بھی نہیں ڈھونڈتے۔ صرف اس گمان پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے جو کچھ کہا اور کیا وہ درست ہی ہو گا۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ محمد پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ ایسا کیوں ممکن نہیں ؟ اس پر دلیل نہیں سوچتے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ یہ قرآن خود محمد (ص) کی اپنی تصنیف ہے، اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ وہ اس پر بھی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود اس قرآن کی نظیر پیش کرنے سے عاجز رہ چکے ہیں۔ بعد کے جملے میں ایک کلی حکم بیان فرمایا : ظن انسان کو حق سے بے نیاز نہیں کرتا۔

واضح رہے کہ شرعی دلیل صرف علم و یقین پر مبنی ہے۔ خود دلیل سے علم حاصل ہونا چاہیے یا اس کے دلیل ہونے پر علم ہونا چاہیے۔ اگر کسی دلیل سے علم ویقین حاصل نہیں ہوتا یا اس کے دلیل ہونے پر علم نہیں ہے جیسے قیاس تو اس کو دلیل تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اہم نکات

۱۔ نص کے مقابلہ میں کوئی اجتہاد درست نہیں ہے۔


آیت 36