تفسیر قرآن سورہ ‎البقرۃ آیات 5 - 9

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵﴾
متقین کے اوصاف بیان فرمانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو ایمان بالغیب کے ذریعے اس کائنات کی طاقت کے سر چشمے کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں اور اقامہ نماز کے ذریعے اپنے آپ کو بندگی کے دائرے میں لاتے ہیں اور انفاق کے ذریعے فیاضی میں اس کائنات میں اپنا مومنانہ کردار ادا کرتے ہیں اور تمام ما انزل اللہ پر ایمان لاتے ہیں، بلا تفریق اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ یہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ مفلحون فلاح، کامیابی حاصل کرنے والے کو کہتے ہیں۔ مفلحون اصل میں فلاح پھاڑنے کو کہتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے والا مشکلات اور سختیوں کو پھاڑ اور چیر کر آگے منزل کی طرف نکلتے ہیں اس لئے ان کو مفلحون کہتے ہیں اور زمیندار کو بھی فلاح کہتے ہیں اس لئے کہ وہ زمین کو چیرتا ہے۔
اس کے بعد، اہل ایمان اور متقین کے اوصاف بیان ہونے کے بعد ارشاد ہوتا ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۶﴾ ان لوگوں کا ذکر آتا ہے جو کافر ہو گئے ہیں۔ کفر چھپانے کو کہتے ہیں۔ کافر چونکہ حق کو چھپاتا ہے اس لئے کافر کو کافر کہتے ہیں۔ فرمایا: جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے سَوَآءٌ برابر ہے ان کے بارے میں ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ آپ ان کا انذار کریں ان کی تنبیہ کریں اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ یا آپ ان کی تنبیہ نہ کریں لَا یُؤۡمِنُوۡنَ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ انذر ینذر انذار، تنبیہ اس کا قریب ترین ترجمہ ہے۔ عام طور پر انذر اور انذار کا ترجمہ کرتے ہیں ڈرانے سے۔ ڈرانا اس کا ترجمہ نہیں ہے، ڈرانا تخویف کا ترجمہ ہے۔ انذار کے سلسلے میں ہماری تھوڑی سی تحقیق یہ ہے کہ الانذار اھل لغت نے کہا ہے الْاِنْذَارُ، اَلْاِبْلَاغُ وَ لَا یَکُوْنُ اِلَّا فِی التَّخْوِیْفِ انذار اس ابلاغ کو کہتے ہیں اس تبلیغ کو کہتے ہیں جس میں خوف کا شائبہ ہو، یعنی خبردار کرنا، آگاہ کرنا، خبردار۔ اس کا صحیح ترجمہ تو خبردار ہے لیکن ہم محاورہ کے اعتبار سے تنبیہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو اس کا نزدیک ترین لفظ ہے تنبیہ۔
جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے لئے آپ انذار کریں، ان کی تنبیہ کریں ان کو خبردار کریں نہ کریں سَوَآءٌ برابر ہے۔ وہ ایمان تنبیہ کرنے کی صورت میں بھی نہیں لائیں گے، نہ کرنے کی صورت میں بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ پہلے تو اس آیت پہ یہ سوال آ سکتا ہے کہ جب کافر لوگوں نے ایمان نہیں لانا ہے تو پھر انبیاء مبعوث کس لئے ہوئے؟ دعوت جو ہے وہ بے فائدہ ہے، بے سود ہے۔ کافر جو ہو گئے انہوں نے ایمان نہیں لانا ہے۔ عرض یہ ہے کہ یہ ان کافروں کے بارے میں ہے جو حق کو پہچاننے کے بعد عناداً انکار کرتے ہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ تمام کافروں کے بارے میں نہیں ہے جن تک حق کی دعوت نہیں پہنچی، جن کے اوپر ابھی حجت پوری نہیں ہوئی، ان کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان کافروں کا ذکر ہے جن تک حق کی دعوت پہنچ گئی حجت پوری ہوگئی، دلیل، حجت و برہان ان کے سامنے رکھ دیا گیا، کفایت کا اور پھر اس کے بعد وہ ایمان نہیں لاتے ہیں، تو ایسے کافروں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ پھر ایمان نہیں لائیں گے۔
یہاں پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے جی اس قسم کے کافروں کے بارے میں یہ ہے، جن پر حجت پوری ہوگئی ہے اور پھر وہ عناداً ایمان نہیں لاتے، نہ اینکہ دلیل اور حجت نہ ہونے کی وجہ سے۔ لیکن پھر بھی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے تو پھر ان کو ایمان کی دعوت کیوں دے؟ عبث ہے، بے فائدہ ہے اور بے سود ہے۔ جواب یہ ہے کہ علم خدا کفایت نہیں کرتا کسی کو ماخوذ کرنے کے لئے، بلکہ اس کے سامنے دعوت رکھ دی جاتی ہے، حجت قائم کی جاتی ہے پھر اس کے بعد وہ عملاً انکار کرتا ہے پھر وہ منکر ہوتا ہے اور کافر بنتا ہے اور اگر دعوت بھی نہ رکھو صرف علم خدا کے اوپر جو ہے وہ ماخوذ نہیں ہوتا۔ علم خدا کی وجہ سے وہ مجرم نہیں ہوتا جب تک عملاً وہ انکار نہ کرے جب تک اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے سامنے دعوت رکھ دی جائے پھر وہ منکر ہو جائے پھر وہ کافر ہوتا ہے۔
دوسرا سوال یہ آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان نہیں لائیں گے، ابو جہل ایمان نہیں لائے گا۔ جب علم الہی میں آگیا کہ ابو جہل ایمان نہیں لائے گا تو ابو جہل کا ایمان لانا نا ممکن ہے، محال ہے کیونکہ وہ علم خدا میں آنے کے بعد بھی ایمان لائے تو علم خدا جو ہے بدل جائے گا، ممکن نہیں کہ جہل میں بدل جائے، علم خدا کا جہل میں بدلنا ممکن نہیں ابو جہل کا ایمان لانا بھی ممکن نہیں۔ جب اس کا ایمان لانا نا ممکن ہے تو ایک نا ممکن کام کے لئے دعوت کیوں دی جاتی ہے؟ کہ وہ مومن بن ہی نہیں سکتا علم خدا کی وجہ سے، جب وہ مومن بن ہی نہیں سکتا اس کو ایمان کی دعوت کیوں دی جاتی ہے؟ نا ممکن کی دینا ممکن ہے؟ جائز ہے؟ درست ہے؟
کچھ اسلامی مکاتیب فکر اس بات کے قائل ہیں کہ نا ممکن چیز کے اوپر حکم آ سکتا ہے۔ ہم شیعہ امامیہ کا موقف یہ ہے کہ نا ممکن چیز کے اوپر حکم نہیں آ سکتا، مکلف نہیں بنا سکتا کسی امر محال کا، ایک ایسی چیز جس کا بجا لانا ممکن ہی نہ ہو اس چیز کو اللہ واجب قرار نہیں دے سکتا۔ کہتے ہیں پھر یہ؟ یہاں پر تو ایسا ثابت ہو رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہاں مثلاً ابو جہل کا ایمان نہ لانا، علم خدا میں آنے کی وجہ سے اس کا ایمان لانا نا ممکن نہیں ہوتا۔ کیوں نا ممکن نہیں ہوتا؟ نا ممکن اس لئے نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ شخص ایمان لانا اس کے لئے ممکن ہوتے ہوئے ایمان نہیں لائے گا، یہ علم خدا میں ہے، علم خدا میں ممکن ہونا بھی ہے کہ اس کے لئے ایمان لانا ممکن تھا ممکن ہونے کے باوجود یہ ایمان نہیں لائے گا نہ اینکہ علم خدا میں آنے کی وجہ سے اس کا ایمان لانا ناممکن ہو گیا۔ ناممکن نہیں تھا۔
ایک استاد کو علم ہوتا ہے پہلے سے اپنے ایک شاگرد کی مزاج اور طبیعت سے کہ یہ بالکل ناکام رہے گا اور ذلیل و خوار رہے گا اپنی زندگی میں اور استاد کے علم میں آنے کی وجہ سے یہ شاگرد جو ہے ناکام رہنے پر مجبور نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اختیار سے اپنے خود مختاری سے اپنے آپ کو ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ لہذا ان کافروں کے لئے انذار اس حساب سے کیا جاتا ہے کہ یہ مستحق عذاب بن جائے، تکلیف ان کے اوپر ثابت ہو جائے، حجت پوری ہو جائے اس لئے ان کا انذار ہوتا ہے اور ان کا ایمان لانا بھی ناممکن نہیں ہوتا۔
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ پہلے عرض کیا کہ یہ اس قسم کے کافروں کے بارے میں جن پر حجت پوری ہوگئی، جن پر حق آشکار ہوگیا اور اس کے بعد انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ پھر ایمان نہیں لائیں گے۔ کیوں ایمان نہیں لائیں گے؟ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دیا ہے وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ ان کی سماعت پر بھی مہر لگا دی وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ اور ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔
یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، وہ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی کے دل پر مہر لگا دیا، بند کر دیا، اس تک پھر حق کی آواز جا ہی نہیں سکتی، حق کو وہ سمجھ نہیں سکتے اور اس کی سماعت پر بھی مہر لگا دی، اس کے کانوں میں آواز حق جاتی ہی نہیں۔ تو پھر اس کو کیوں ماخوذ سمجھتے ہیں؟ جب اللہ نے خود مہر لگا دیا نا ممکن کر دیا، ایک چیز کو ناممکن کرنے کے بعد اس سے کہا جائے کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا، ایک شخص کو ہاتھ پیر باندھ کے پانی میں ڈال دیا جائے اور پھر اس سے کہا جائے کہ خبردار کپڑے بھیک جائے،یہ کیسی دعوت ہے؟
یہاں پر بھی اسلامی کلامی مکاتیب فکر ہیں کئی ایک۔ ایک مکتب فکر کو مکتب جبر کہتے ہے۔ مکتب جبر والوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اعمال عباد اور اس کے خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ کے مقابلے میں بندوں کی تخلیقی چیز سامنے نہیں آسکتی کہ بندے بھی کوئی عمل تخلیق کرے۔ اعمال عباد اللہ خلق کرتا ہے بندہ نہیں کرتا، لہذا بندہ مجبور ہے بہرحال آگے بھی اس سلسلے میں ایک بحث آئے گی وہاں ہم تفصیلاً بحث کریں گے، یہاں صرف یہ دلوں کے اوپر مہر لگانے سے مربوط بحث کریں گے خالی۔ کہ دلوں کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کیسے مہر لگا دی اس سے تو نظریہ جبر ثابت ہو جاتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے اوپر مہر لگاتا ہے ارشاد فرماتا ہے، کبھی فرماتا ہے اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ گمراہ کرتا ہے اللہ گمراہ کرتا ہے، ہدایت دیتا ہی نہیں گمراہ کرتا ہے۔ یہ کس صورت میں اور کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ یہ قرآنی پوری تعلیمات کو سامنے رکھ کر اور اللہ تعالیٰ کی سنت الہیہ ہے، طریقہ عمل ہے اس کائنات میں بندوں کے ساتھ ان سب کو سامنے رکھ کر بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کے بارے میں نظریہ کے بارے میں جابجا فرمایا ہے، رسالت مآب سے بھی فرمایا ہےلَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ، لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ، لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ دین میں جبر نہیں ہے اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ہم نے راستہ دکھا دیا یا وہ اس کو قبول کریں یا انکار کریں۔ بیسیوں آیات ایسی ہیں جن سے انسان کی خود مختاری اور ہدایت میں عدم جبر ثابت ہوتا ہے۔
جب کوئی شخص کوئی انسان حق کے آشکار ہونے کے بعد، حق ثابت ہونے کے بعد انکار کرتا ہے از روئے عناد، قابل ہدایت نہیں رہتا۔ قابل ہدایت نہ رہنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ اس شخص سے ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔ اس ہاتھ اٹھانے کے بعد، جب سر چشمہ ہدایت ہاتھ اٹھائے، جہاں سے ہدایت ملنا ہے، ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، ہدایت جہاں سے ملنا ہے اس نے ہاتھ اٹھا لیا تو پھر کہاں سے ہدایت ملے گی؟ اور تو کوئی سورس ہے ہی نہیں، اور کوئی طریقہ نہیں ہے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے ہدایت لینے کا۔ یہیں سے ہدایت ملنا تھا اس نے ہاتھ اٹھا لیا، ہدایت کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے۔ جب سرچشمہ ہدایت نے اس سے ہاتھ اٹھا دیا تو پھر اور کوئی ذریعہ ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں کے اوپر مہر لگ جاتی ہے یعنی اور کہیں سے کوئی ہدایت ان کے دلوں کی طرف جا ہی نہیں سکتی۔ اس کو مہر سے تعبیر فرمایا ہے کبھی اور کبھی اس کو یضل خدا گمراہ کرتا ہے یعنی اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ جب اللہ ہدایت نہیں دیتا ہے تو پھر کہاں سے ہدایت آئے؟ اس اللہ کے بعد ہدایت دینے والا کون ہے؟ اس کو اپنے حال پر چھوڑتا ہے۔
اس کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فَنَذَرُ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ فَنَذَرُ ہم چھوڑ دیتے ہیں الذین وہ لوگ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا جو ہماری ملاقات کا عقیدہ نہیں رکھتے، یعنی آخرت کا عقیدہ نہیں رکھتے ان کو ہم چھوڑ دیتے ہیں فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ اپنی طغیانی میں، سر کشی میں سر گرداں چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی چھوڑ دیتے ہیں ارشاد فرمایا کبھی خَتَمَ اللّٰہُ ارشاد فرمایا کبھی یضل ارشاد فرمایا اور پھر بہت سے دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ م جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کیا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ان کے دلوں میں پہلے سے بیماری تھی، ناقابل علاج بیماری تھی تو اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تو بیماری اور بڑھ گئی بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دیا بِکُفۡرِہِمۡ ان کے کفر کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ پہل نہیں کرتا اس سلسلے میں۔ لہذا خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ سے مراد جو لوگ نا قابل ہدایت ہیں ان کو اپنے حال پر اللہ چھوڑ دیتا ہے اور اپنے حال پر چھوڑ دینے کو ختم کے ساتھ تعبیر فرمایا۔ ہمارے ہاں احادیث نبوی ہم آئمہ اہلبیت عليهم‌السلام کے ذریعے سے لیتے ہیں، ایک حدیث میں ہے اس آیت کے ذیل میں ارشاد فرمایا الختم یعنی مہر لگانے کا کیا مطلب ہے؟ اَلْخَتْمُ ھُوَ الطَّبْعُ عَلَی قُلُوبِ الْکُفَّارِ عُقُوبَۃً عَلَی کُفْرِھِمْ ان کے کفر کے لئے عذاب اور سزا کے طور پر، جب وہ کفر پر ڈٹ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے ہاتھ اٹھا دیتا ہے، یہ ہاتھ اٹھا دینا اور ڈھیل دینا سب سے بڑی سزا ہے۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ اب تیسرے فریق کا ذکر آتا ہے، پہلا فریق متقین ہیں جو اپنے آپ کو آنے والے تمام خطرات سے بچاتے ہیں۔ دوسرا فریق وہ کافر ہے جو نا قابل علاج، نا قابل ہدایت ہے اور تیسرا فریق وہ لوگ ہیں جو نہ متقین میں شامل ہیں نہ کفار میں شامل ہیں، بلکہ منافقین ہیں۔ نفاق کا سلسلہ مدینہ میں شروع ہوا علاناً۔ منافق قلباً وہ کافر ہے، دل سے وہ منکر ہے زبان میں وہ اسلام کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اس منکر سے جو زبان سے انکار کرتا ہے بدتر ہے۔ اس لئے کافر جیسا بھی کافر ہے وہ انکار کی جرات کرتا ہے اور کھل کر سامنے آتا ہے، واضح اور آشکار دشمن ہے، دشمن مبین۔ سب کو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا دشمن ہے لیکن منافق مسلمان کے صفوں کے اندر رہتا ہے اور اسلام کا اظہار کرتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک بھی ہے اور زیادہ بدتر ہے۔ کفر سے بھی زیادہ بدتر ہے جو کفر کے اظہار کرنے کی بھی جرات نہیں کرتا اور کفر کو دل میں چھپاتا ہے۔
ایسے لوگ جو کفر کو دل میں چھپاتا ہے یہ لوگ ذہنی طور پر ایک عدم اطمینان کا شکار رہتے ہیں اور فکری اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ اس فکری اضطراب کے سلسلے میں آگے ارشاد فرمایا یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ یہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ حالانکہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ وہ اس کا شعور نہیں رکھتے، نہیں سمجھ رہے ہیں کہ ہم خود دھوکہ کھا رہے ہیں۔ یہ خدا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں؟ یعنی خود فریبی ہے۔ خدا دھوکہ کھائے گا، مومنین دھوکہ کھائیں گے، جبکہ یہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں کہ خدا اور مومنین دھوکہ کھا رہے ہیں۔ اس خیال میں اس فکر میں کہ وہ یہ خیال رکھتے ہیں یہ واہمہ رکھتے ہیں کہ ہم دھوکہ دے رہے ہیں ان کو اور یہ لوگ ہم سے دھوکہ کھا رہے ہیں، یہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں، کہ مومنین دھوکہ میں آ گئے ہیں۔ جبکہ اللہ اور مومنین ان کے دھوکے میں نہیں آتے۔ یہ ان کے غیر شعوری ناکامی ہے، منافقین کی۔ ایک فکری اضطراب کا ذکر آگے آتا ہے ایک غیر شعوری ناکامی ہے کہ وہ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ اور مومنین کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ وہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں۔