آیات 123 - 126
 

قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی ۬ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ فرمایا: یہاں سے دونوں اکٹھے اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر پھر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ شقی۔

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ وہ کہے گا: میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟

قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔

تشریح کلمات

الضنک:

( ض ن ک ) کسی مقام یا زندگی کے تنگ ہو جانے کے معنی میں ہے۔

تفسیر آیات

قَالَ اہۡبِطَا: حضرت آدم کے جنت سے اخراج کے بارے میں مباحث کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۳۰۔ ۳۵، الاعراف۔ ۱۹

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ: انسان اپنے وجود کے تمام زاویوں کے ماوراء ایک شعور رکھتا ہے۔ یہ شعور اپنے خالق سے مانوس ہونا ہے۔ جس ہستی نے اس کے وجود کے تاروں کو جوڑا ہے، اس ہستی کا جس قدر قرب حاصل ہو اس قدر شعور کو سکون و سرور مل جاتا ہے اور اس سے جدائی اور دوری کی صورت میں یہ بے سکون ہو جاتا ہے خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کو میسر آ جائے۔

اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔

اگر انسان صرف اسی دنیاوی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اس دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی: دنیا کی زیب و زینت میں انہماک کی وجہ سے اس دنیا دار کی چشم ضمیر نابینا ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن انسان اسی حالت میں محشور ہو جاتا ہے جس حالت میں اس نے دنیا کی زندگی گزاری ہے۔ لہٰذا دنیا میں اس کی حسی بصارت سالم تھی لیکن قیامت کے روز دنیا میں اس کے ضمیر اور وجدان کی کیفیت کے مطابق معاملہ ہو گا۔

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا (۱۷ بنی اسرائیل:۷۲)

اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔


آیات 123 - 126