آیت 4
 

اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَۃً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُہُمۡ لَہَا خٰضِعِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں ۔

تفسیر آیات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمایا: آپؐ کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ ہر صورت میں ایمان لے آئیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ایک ایسی نشانی آسمان سے نازل کرتے جس کے بعد وہ قہراً تسلیم ہو جاتے۔

ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل نہ تھا لیکن اللہ کو جبری ایمان منظور نہیں، نہ ہی جبری ایمان کی کوئی قیمت ہے۔ جبری ایمان تو فرعون نے بھی قبول کیا تھا۔ جب غرق ہو رہا تھا تو کہا تھا: میں ایمان لاتا ہوں اس خدا پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔

اللہ کو جبری ایمان اس لیے قبول نہیں ہے کیونکہ ایمان وہ ہے جس میں ذات الٰہی کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کی محبت دل میں اتر جائے پھر اسے قبول کرے۔

اَعۡنَاقُہُمۡ لَہَا خٰضِعِیۡنَ: خاضعات نہیں فرمایا چونکہ خضوع عقلاء کی صفت ہے۔ خضوع (جھک جانا) صاحبان عقل کے لیے وصف بن سکتا ہے ورنہ عنق گردن از خود، قصداً نہیں جھکتی۔ بعض نے یہاں سے کہا ہے: اصحاب مضافِ محذوف ہے اور خاضعین اصحاب کی خبر ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان وہ ہے جس کے سامنے دل جھک جائے، نہ گردن۔


آیت 4