مشیت الٰہی، انسانی اعمال کی نسبت


وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،

23۔ اصل فعل و عمل کی نسبت بندے کی طرف بھی ہو سکتی ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے متعدد مقامات پر اعمال کو انسانوں کی طرف نسبت دی ہے۔ یہاں بات استقلال کی ہو رہی ہے کہ کسی عمل کو بطور استقلال اپنی طرف نسبت نہ دو۔ اس کائنات میں اذن و مشیت الٰہی کے بغیر کوئی پتا نہیں ہل سکتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اذن و مشیت الٰہی امور تکوینی سے متعلق ہیں، امور تشریعی سے نہیں۔