بنیامین کو پاس رکھنے کی تدبیر پر عمل درآمد


فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ﴿۷۶﴾

۷۶۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

76۔ تدبیر پر نہایت ہوشیاری سے عمل کیا جا رہا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم ہے کہ پیالہ اپنے بھائی کے تھیلے میں ہے، مگر تلاشی کی ابتدا دوسرے بھائیوں کے تھیلوں سے کرتے ہیں تاکہ کسی سوچی سمجھی تدبیر کا کہیں شائبہ نہ ہو جائے۔ اس تدبیر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا اور کوئی بہانہ نہ تھا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے درست ہی نہ تھا کہ وہ شاہی قانون کے مطابق عمل کریں۔ وہ پیغمبر ہیں، الہٰی قانون پر ہی عمل کریں گے۔ اگرچہ یہاں بنیامین حقیقتاً چور نہیں ہیں، لہٰذا سزا بھی حقیقی نہیں تھی۔ تاہم ظاہری طور پر بھی ایک رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ الٰہی قانون کو چھوڑ کر شاہی قانون پر عمل کرے۔ رہا یہ سوال کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکومت میں داخل ہوتے ہوئے شاہی قانون کس طرح نافذ تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین کا نفاذ اور تبدیلی نظام ہمیشہ تدریجی ہوا کرتی ہے۔ ابتدا میں رسول اسلام ﷺ کے لیے بھی ممکن نہ تھا کہ بہ یک جنبش قلم تمام جاہلی قوانین ختم کر کے اسلامی قوانین نافذ کریں۔