بد شگونی کا عقیدہ


قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بدشگونی خود تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ(بدشگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔

19۔ بدشگونی لوگوں کے توہمات کی پیدا کردہ ہے اور اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ مختلف اقوام میں بدشگونی کے توہمات مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔ مثلاً کوے کا کائیں کائیں کرنا عربوں میں جدائی کی علامت ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہی علامت وصال کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوا بولے تو مہمان آنے والا ہوتا ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے: وَالطِّیَرَۃُ لَیْسَتْ بِحَقٍّ (شرح نہج البلاغۃ 19: 372) بدشگونی حق پر مبنی نہیں ہے۔