کائنات کی ابتداء


اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ کیا کفار اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا ہے اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟

30۔ رَتۡقً کے معنی یکجا ہونا اور فَتَقۡ کے معنی جدا ہونا ہیں۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جن عناصر سے اجرام ارضی و سماوی وجود میں آئے ہیں، ان سب کا مادہ اصلیہ ایک تھا۔ ممکن ہے یہ مادہ ابتدا میں سحابی شکل میں ہو جس کو قرآن نے دخان (دھواں) کہا ہے اور بعد میں یہ اجرام سماوی و ارضی میں منقسم ہو کر جدا ہو گیا ہو۔ یہ رتق و فتق کے ایک مصداق کا ذکر ہے۔

امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث میں اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ شروع میں آسمان اور زمین بند تھے، اللہ نے ان دونوں کو کھول دیا تو آسمان سے بارش ہوئی اور زمین سے پیداوار نیز اس امکان کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک نقطہ سے ہوئی جس کے پھیلنے سے تمام اجرام سماوی وجود میں آ گئے اور پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہتے ہیں فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اس نظریے پر قرینہ ہے، چونکہ فطر شگافتہ کرنے کو کہتے ہیں۔

یہ بات تو اب سب کے لیے واضح ہو گئی ہے کہ ہر جاندار کے تخلیقی عناصر میں پانی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ پانی حیات کے وجود و بقا دونوں کے لیے بنیاد ہے۔