کائناتی نظام میں اللہ کے دو فیصلے


یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

39۔ کائناتی نظام میں اللہ تعالیٰ کے دو فیصلے ہوتے ہیں: ایک فیصلہ اٹل، حتمی اور ناقابل تغیر اور دوسرا فیصلہ قابل تغیر ہوتا ہے۔ اگر اللہ کے حتمی فیصلے نہ ہوتے تو اس کائنات کی کسی چیز پر بھروسا نہ ہوتا۔ مثلاً فصل اگنا حتمی نہ ہوتا تو کوئی کاشت نہ کرتا اور اگر فیصلوں میں لچک نہ ہوتی تو انسان مجبور ہوتا اور اپنے کردار و اعمال کا اس پر کوئی اثر مترتب نہ ہوتا۔ حدیث میں آیا ہے: لا یرد القضاء الا الدعاء و لا یزید فی العمر الا البر (بحار الانوار 90: 300) اللہ کے فیصلے کو صرف دعا روک سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر دراز ہو سکتی ہے۔

البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ کا فیصلہ ایسے نہیں بدلتا جیسے ہمارا فیصلہ بدلتا ہے۔ ہمارا فیصلہ تو اس وقت بدلتا ہے جب کوئی نئی بات سامنے آ جاتی ہے جو پہلے معلوم نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمام فیصلوں کا یکساں علم ہوتا ہے: وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ (رعد: 39) تمام فیصلوں کا منبع و سر چشمہ اس کے پاس ہے۔ تمام قابل تغیر اور ناقابل تغیر فیصلوں کا علم اس کے پاس ہے۔ یعنی اللہ کے پاس ایک قانون کلی ہے جس کے تحت فیصلے بدلتے ہیں۔ یہی مسئلہ بدا ہے، جس کی تفصیل ہم نے مقدمہ تفیسر قرآن میں ذکر کی ہے۔