آیت 39
 

یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

تشریح کلمات

یَمۡحُوا:

( م ح و ) المحو کے معنی کسی چیز کے اثر اور نشان کو زائل کرنے اور مٹا دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں فرمایا: لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ ہر عصر کے لیے ایک کتاب ہوا کرتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا: اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے۔ سیاق آیت کے مفہوم سے اخذ ہو سکتا ہے کہ اس محو و اثبات کا تعلق کتاب و شریعت سے ہے۔

تاہم آیت کی تعبیر عام ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کا محو و اثبات مشیت الٰہی میں ہو۔

کائناتی نظام میں اللہ تعالیٰ کے دو فیصلے ہوتے ہیں:

ایک فیصلہ اٹل، حتمی اور ناقابل تغیر ہے۔

دوسرا فیصلہ قابل تغیر ہے۔

اس کائنات کے کچھ ثابت اور لا یتغیّر دستور ہیں جن پر یہ نظام قائم ہے۔ ان میں تبدیلی آنا ممکن نہیں ہے۔ان امور کو اللہ نے اپنی سنت قرار دیا ہے:

وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۔۔۔۔ ( ۳۳ احزاب: ۶۲ )

اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

لیکن اس کے ساتھ کچھ امور ایسے بھی ہیں جن میں لچک کی گنجائش رکھی ہے تاکہ انسان مجبور نہ ہو بلکہ اپنے اعمال و کردار کے نتائج و اثرات کا ذمے دار اور گروی ہو۔ اگر اللہ کے حتمی فیصلے نہ ہوتے تو اس کائنات کی کسی چیز پر بھروسہ نہ آتا اور اگر کچھ فیصلوں میں لچک کی گنجائش نہ ہوتی تو انسان مجبور ہوتا اور اپنے اعمال و کردار کا اس پر کوئی اثر مترتب نہ ہوتا۔ اسی سلسلے میں فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۱۱)

اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔۔۔۔

شیعہ و سنی مصادر میں بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی اعمال سے اللہ کے فیصلے بدل جاتے ہیں۔

رسول اللہؐ سے روایت ہے:

لا یرد القضا الا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر ۔ (صحیح ترمذی ۸:۳۵۰)

اللہ کے فیصلے کو صرف دعا روک سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر لمبی ہوتی ہے۔

رسول اللہؐ سے روایت ہے:

لا یزید فی العمر الا البر ولا یرد القدر الا الدعاء و ان الرجل لیحرم الرزق لخطیئۃ یعملھا ۔ ( ابن ماجہ باب القدر ۱:۳۴۔ مستدرک حاکم۔مسند احمد ۵: ۲۷۷)۔ (ذہبی نے اس پر اختلافی نوٹ نہیں لکھا)

عمر میں اضافہ نیکی سے ہی ہو سکتا ہے۔ تقدیر کو صرف دعا روک سکتی ہے اور انسان اپنی غلطی کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔

البتہ یہ ذہن میں رہے کہ اللہ کا فیصلہ ایسا نہیں بدلتا جیسے ہمارا فیصلہ بدلتا ہے۔ ہمارا فیصلہ تو اس وقت بدلتا ہے جب کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے جو پہلے معلوم نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کو تمام فیصلوں کا یکساں علم ہوتا ہے۔

۱۔ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ: تمام فیصلوں کا منبع و مصدر اس کے پاس ہے۔ اس کے سامنے تو وہ فیصلے بھی موجودہیں جو بدلنے والے ہیں۔ بدلنے سے پہلے اس کے بدلنے کا بھی علم ہے۔ تمام قابل تغیر اور ناقابل تغیر فیصلوں کی ام الکتاب اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کے پاس ایک قانون کلی ہے جس کے تحت فیصلے بدلتے ہیں اور یہ کلی قانون ناقابل تغیر ہے۔ ام الکتاب ان فیصلوں کا مجموعہ ہے جو ناقابل تغیر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لکل امر یریدہ اللّٰہ فھو فی علمہ قبل ان یصنعہ و لیس شیء یبدو لہ الا و قد کان فی علمہ، ان اللّٰہ لا یبدو لہ من جہل ۔ ( تفسیر العیاشی ۲: ۲۱۸۔ المیزان ۱۱: ۳۸۱)

وہ امر جس کا اللہ ارادہ فرماتا ہے، اس ارادے کی بجا آوری سے پہلے اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ اللہ کا کوئی نیا فیصلہ نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ پہلے ہی اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ اللہ کا کوئی نیا فیصلہ جہالت پر مبنی نہیں ہوتا۔

یہی مسئلہ بدا ہے جس کا ہم نے مقدمہ تفسیر میں ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان اپنے اعمال کے ذریعے اپنی تقدیر بنا سکتا ہے: یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۔۔۔۔

۱۲۔ کائنات میں آنے والی تبدیلیوں کا مرکزی مصدر اللہ کے پاس ہے: وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ ۔۔۔۔


آیت 39