وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَیۡرٍ لَّکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ لِیُرۡضُوۡکُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَحَقُّ اَنۡ یُّرۡضُوۡہُ اِنۡ کَانُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۶۲﴾ ۞ؓ

۶۲۔ یہ لوگ تمہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے اگر یہ مومن ہیں۔

62۔ منافق چونکہ گمراہ ہیں اور گمراہ کو پتہ نہیں چلتا کہ کون سا عمل اس کے حق میں بہتر ہے، وہ عام مسلمانوں کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس طرح ان کا راز فاش نہ ہو گا۔لوگ ان پر اعتماد کریں گے۔ جبکہ ان کے حق میں بہتری اس میں تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کریں، مگر وہ اللہ اور اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کر کے اپنے زعم میں دوسرا چارہ کار تلاش کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: اللہ اور رسول کی مخالفت کے ساتھ جہنم اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الۡخِزۡیُ الۡعَظِیۡمُ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔

یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے، ان سے کہدیجئے: تم استہزا کیے جاؤ، اللہ یقینا وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔

64۔ منافقین رسول کو سچا تو نہیں سمجھتے تھے تاہم انہیں گزشتہ چند سالوں میں ایسے اتفاقات پیش آئے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے رازوں کا علم ہوا۔ وہ اسے بذریعہ وحی نہیں بلکہ یہ تصور کرتے تھے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص لوگوں نے کھوج لگا کر یہ باتیں ان کو بتائی ہیں۔ اب غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ان منافقین کو زیادہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں ہمارے دل کی باتوں کا ان لوگوں نے کھوج لگایا ہو اور محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کو قرآن بنا کر لوگوں میں پیش نہ کریں اور ہم نے آپس میں رسول کا جو استہزاء کیا ہے اس کو کہیں برملا نہ کریں، اس طرح ہم بے نقاب ہو جائیں گے۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے، کہدیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔

65۔ مختلف اور متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ جب بذریعہ وحی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع ہو جاتی اور منافقین سے دریافت کیا جاتا تو وہ جو جواب دیتے تھے اس جواب میں بھی اللہ اور اس کی آیات اور رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑاتے تھے۔ یعنی یہ کہنا کہ ہم خوش گپی میں یہ باتیں کہ گئے۔ یہ خود اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ استہزاء ہے۔

لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ ؕ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۶۶﴾

۶۶۔ عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم نے تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر بھی دیا تو دوسری جماعت کو ضرور عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔

اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ بَعۡضُہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡکَرِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَقۡبِضُوۡنَ اَیۡدِیَہُمۡ ؕ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمۡ ؕ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں۔

67۔ منافقین چاہے مرد ہوں یا عورت ان کی سوچ اور کردار میں ہم آہنگی ہوتی ہے۔ وہ ایک جیسے سوچتے اور ایک جیسے کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ نیکیوں سے روک کر برائی کی ترغیب دینا، انفاق سے دوری اور خدا فراموشی کے ساتھ اپنی انسانی حیثیت کو فراموش کرنا ان کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ یہ باتیں ہر زمانے میں نفاق کی علامات ہیں۔

وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡکُفَّارَ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ہِیَ حَسۡبُہُمۡ ۚ وَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہی ان کے لیے کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔

68۔اس آیت میں منافقین کے خلاف نہایت شدید لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔1۔ آتش جہنم میں ہمیشہ رہنا 2۔ یہ عذاب اس حد تک ہو گا کہ اس سے زائد کے لیے گنجائش نہیں۔3۔ ہِیَ حَسۡبُہُمۡ ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ 4۔ ان کے لیے ایک اور عذاب کا ذکر ہوا ہے، جس کے لیے لفظ مُّقِیۡمٌ استعمال فرمایا۔ ممکن ہے یہ عذاب جہنم کے عذاب کے علاوہ دنیاوی عذاب ہو اور اس زندگی میں بھی وہ ایک نفسیاتی اور معنوی عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہتے ہوں۔ واللّٰہ العالم

کَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡکُمۡ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرَ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ؕ فَاسۡتَمۡتَعُوۡا بِخَلَاقِہِمۡ فَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِخَلَاقِکُمۡ کَمَا اسۡتَمۡتَعَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ بِخَلَاقِہِمۡ وَ خُضۡتُمۡ کَالَّذِیۡ خَاضُوۡا ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ (تم منافقین بھی) ان لوگوں کی طرح (ہو)جو تم سے پہلے تھے وہ تم سے زیادہ طاقتور اور اموال اور اولاد میں تم سے بڑھ کر تھے، انہوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے پس تم بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹ رہے ہو جس طرح تم سے پہلوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے اور جس طرح وہ باطل بحثیں کرتے تھے تم بھی کرتے رہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

69۔ منافقین کی تاریخ کا ذکر ہے کہ شاید عصر نزول قرآن اور اس کے بعد آنے والے منافقین تاریخ سے عبرت حاصل کریں کہ گزشتہ تاریخ کے منافقین زیادہ عیش و عشرت، کیف و سرور، مال و دولت اور طاقت و قدرت کے حامل تھے۔ چونکہ وہ بھی تمہاری طرح باطل بحثوں اور گندی باتوں میں وقت ضائع کرتے رہے۔ زندگی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو دنیا و آخرت میں ان کی زندگی تلف ہو گئی

اَلَمۡ یَاۡتِہِمۡ نَبَاُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ۙ وَ قَوۡمِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اَصۡحٰبِ مَدۡیَنَ وَ الۡمُؤۡتَفِکٰتِ ؕ اَتَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (مثلاً) قوم نوح اور عاد و ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیوں والوں کی خبر نہیں پہنچی؟ جن کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے،پھر اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔

70۔ تاریخ کے اہم ابواب کا مطالعہ ہے کہ نوح کی قوم نے اسی طرح اپنے رسول کا مذاق اڑایا، وہ غرق ہو گئی۔ یہی وطیرہ اختیار کرنے پر قوم عاد کو آندھی نے ہلاکت میں ڈال دیا۔ اپنے رسول کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کرنے پر ثمود کی قوم بھی نابود ہو گئی۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو جو مذلت اٹھانا پڑی وہ بھی صفحہ تاریخ میں ثبت ہے۔ مدین والے اور لوط کی قوم کا جو حشر ہوا وہ بھی تاریخ کا ایک عبرتناک واقعہ ہے۔