آیت 64
 

یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے، ان سے کہدیجئے: تم استہزا کیے جاؤ، اللہ یقینا وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ: منافقین، رسولؐ کو سچا تو نہیں کہتے تھے تاہم انہیں گزشتہ چند سالوں میں ایسے اتفاقات پیش آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے رازوں کا علم ہوا ہے۔ وہ اسے بذریعہ وحی نہیں بلکہ یہ تصور کرتے تھے کہ رسولؐ کے لوگوں نے کھوج لگا کر یہ باتیں ان کو بتائی ہیں۔ اب غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران ان منافقین کو زیادہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں ہمارے دل کی باتوں کا ان لوگوں نے کھوج لگا لیا ہو اور محمدؐ انہیں قرآن بنا کر لوگوں میں پیش نہ کریں اور ہم نے آپس میں رسولؐ کا جو استہزا کیا ہے، اسے کہیں بر ملا نہ کریں۔ اس طرح ہم بے نقاب ہو جائیں گے۔

۲۔ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا: کہدیجیے تم اپنا استہزا جاری رکھو۔ ہم تمہارا راز فاش کرتے جائیں گے۔ واضح رہے اسۡتَہۡزِءُوۡا امر ہے اس قسم کے امر کو امر تہدیدی کہتے ہیں۔ یعنی جب دھمکی دینا ہو یا کسی عذاب کی خبر سنانا ہو تو پہلے اس قسم کا امر صادر ہوتا ہے۔


آیت 64