یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے، ان سے کہدیجئے: تم استہزا کیے جاؤ، اللہ یقینا وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔

64۔ منافقین رسول کو سچا تو نہیں سمجھتے تھے تاہم انہیں گزشتہ چند سالوں میں ایسے اتفاقات پیش آئے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے رازوں کا علم ہوا۔ وہ اسے بذریعہ وحی نہیں بلکہ یہ تصور کرتے تھے کہ رسول ﷺ کے خاص لوگوں نے کھوج لگا کر یہ باتیں ان کو بتائی ہیں۔ اب غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ان منافقین کو زیادہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں ہمارے دل کی باتوں کا ان لوگوں نے کھوج لگایا ہو اور محمد ﷺ اس کو قرآن بنا کر لوگوں میں پیش نہ کریں اور ہم نے آپس میں رسول کا جو استہزاء کیا ہے اس کو کہیں برملا نہ کریں، اس طرح ہم بے نقاب ہو جائیں گے۔