فَجَعَلۡنٰہُ فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام میں ٹھہرائے رکھا۔

اِلٰی قَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ ایک معین مدت تک کے لیے۔

22۔ اس کا تعین صرف اللہ کر سکتا ہے کہ بچہ شکم مادر میں کتنی مدت تک رہ سکتا ہے۔

فَقَدَرۡنَا ٭ۖ فَنِعۡمَ الۡقٰدِرُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ پھر ہم نے ایک انداز سے منظم کیا پھر ہم بہترین انداز سے منظم کرنے والے ہیں

23۔ اس کی تخلیق کی تکمیل کے ساتھ ہم اس کے مقدرات کا بھی تعین کرتے ہیں کہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے یہ بچہ کس شخصیت کا مالک بننے والا ہے۔

وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ کِفَاتًا ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ کیا ہم نے زمین کو قرار گاہ نہیں بنایا،

25۔ کفات کا ایک معنی ظرف کے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ معنی بنتے ہیں: کیا ہم نے زمین کو زندہ اور مردہ لوگوں کے لیے ظرف نہیں بنایا؟ اور اس کے ایک معنی حرکت کے بھی ہیں۔ اس صورت میں اس کے یہ معنی بنتے ہیں: کیا ہم نے زمین کو متحرک نہیں بنایا؟ لیکن یہ معنی مراد لینا قرین قیاس نہیں ہے، کیونکہ زمانۂ خطاب کے لوگ حرکت ارض سے واقف نہ تھے کہ اس کو مسلمہ امر قرار دے کر ان سے خطاب کیا جائے۔

اَحۡیَآءً وَّ اَمۡوَاتًا ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ زندوں کے لیے اور مردوں کے لیے،

وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے اس میں بلند پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے تمہیں شیرین پانی پلایا۔

وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اور اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔

اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿ۚ۲۹﴾

۲۹۔ اب تم لوگ جاؤ اس چیز کی طرف جسے تم جھٹلاتے تھے۔

اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ چلو اس دھویں کی طرف جو تین شاخوں والا ہے۔

30۔ یعنی جہنم کا دھواں،جس کی کئی شاخیں ہوں گی۔