اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

51۔ اس موضوع پر حاشیہ سورہ صافات آیت 173 پر ملاحظہ فرمائیں۔

یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ الظّٰلِمِیۡنَ مَعۡذِرَتُہُمۡ وَ لَہُمُ اللَّعۡنَۃُ وَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اس روز ظالموں کو ان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور ان کے لیے بدترین ٹھکانا ہو گا۔

52۔ یا تو یہ لوگ معذرت پیش کر ہی نہ سکیں گے یا ان کی معذرت قبول نہ ہو گی۔ معذرت کا قبول ہونا ایک قسم کی رحمت ہے۔ یہ لوگ رحمت الٰہی سے دور ہوں گے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡہُدٰی وَ اَوۡرَثۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو ہدایت دی اور بنی اسرائیل کو ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا،

53۔ اس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس لحاظ سے ہے: ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مقابلے کے لیے مامور کیا تو انہیں کامیاب بنانا ہمارے ذمے تھا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کامیاب بنایا اور بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب کا وارث بنایا۔ اس میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے ایک لطیف اشارہ ہے: جس ذات نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مقابلے میں کامیابی عنایت کی ہے، وہ آپ کو بھی کامیابی عنایت کرے گا۔

ہُدًی وَّ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۵۴﴾

۵۴۔ جو صاحبان عقل کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ﴿۵۵﴾

۵۵۔ پس آپ صبر کریں،یقینا اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اپنے گناہ کے لیے استغفار کریں اور صبح و شام اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں۔

55۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ بیان کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: جب طاغوتوں کا انجام آپ نے دیکھ لیا تو درپیش مشکلات کے لیے صبر سے کام لیں۔ ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی مدد کرنے والے ہیں۔ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ اپنے گناہ کے لیے استغفار کر۔یعنی اپنے قصور کے لیے تلافی طلب کر۔ واضح رہے، ہر ایک کا قصور اس کے مقام کے مطابق ہوتا ہے۔ غیر معصوم کا قصور یہ ہے کہ امر مولا کی مخالفت کرے۔ معصوم کا قصور یہ احساس ہے کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ معرفت الٰہی میں مستغرق ہونے کے باوجود یہ احساس ہے: ما عرفنٰک حق معرفتک ۔ (بحار الانوار 68:23) چنانچہ نبی اور رسول یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس کا برگزیدہ ہوں کہ مجھے اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ لیکن کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے بندگی کا حق ادا کیا ہے۔ اس آیت میں وعدﮤ نصرت کے بعد استغفار کا حکم اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی تحریک میں کچھ افراد کی وجہ سے جو قصور ہے، اس کی تلافی کر۔ چونکہ غفران کے ایک معنی تلافی کے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰہُمۡ ۙ اِنۡ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ اِلَّا کِبۡرٌ مَّا ہُمۡ بِبَالِغِیۡہِ ۚ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۵۶﴾

۵۶۔ بے شک جو لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، ان کے دلوں میں بڑائی کے سوا کچھ نہیں، وہ اس (بڑائی) تک نہیں پہنچ پائیں گے، لہٰذا آپ اللہ کی پناہ مانگیں، وہ یقینا خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

57۔ کفار حیات بعد از موت کو بعید از امکان سمجھتے تھے۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ اس وسیع و عریض کائنات کا بنانا، انسانوں کے بنانے سے بہت بڑا کام ہے۔ جس ذات نے اس عظیم کائنات کو بنایا ہے، اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۬ۙ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الۡمُسِیۡٓءُ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے نیز نہ ہی ایماندار اور عمل صالح بجالانے والے اور بدکار، تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔

اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ قیامت یقینا آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقینا وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔

60۔آیت کا سیاق بتلاتا ہے کہ دعا کرنا عین عبادت ہے اور جو لوگ تکبر کے باعث اللہ کی عبادت نہیں کرتے، وہ خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے نیز اس آیت میں ایک حکم اور ایک وعدہ ہے۔ ادۡعُوۡنِیۡۤ دعا کا حکم ہے اور اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ اجابت دعا کا وعدہ ہے۔ لہٰذا کوئی اس حکم کی تعمیل کرے اور حقیقی معنوں میں دعا کا عمل انجام دے تو اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اس کی دعا ضرور قبول ہو گی۔ چنانچہ دعاؤں میں یہ جملہ ملتا ہے: اللھم انی قد دعوتک کما امرتنی فاستجب لی کما وعدتنی ۔ اے اللہ میں نے تیرے حکم کی تعمیل میں دعا کی ہے، لہٰذا تو اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے میری دعا قبول فرما۔ اس موضوع پر مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ : 186۔