آیات 10 - 11
 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ اَوَ لَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِیۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو ہیں: ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الٰہی کی مانند تصور کرتے ہیں اور اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو وہ ضرور کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا اللہ کو اہل عالم کے دلوں کا حال خوب معلوم نہیں ہے؟

وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اللہ نے یہ ضرور واضح کرنا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ منافق کون ہیں؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ: یہ دو آیات روایات کے مطابق ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو مکے میں اسلام لائے لیکن بعد میں مشرکین کی طرف سے اذیت پہنچنے پر دوبارہ کفر اختیار کیا۔

۲۔ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ: جب انہیں ایمان کی وجہ سے اذیت اٹھانا پڑی تو انہوں نے لوگوں کی طرف سے ہونے والی اذیت کو عذاب الٰہی کی مانند قرار دیا۔ جس طرح عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے ایمان کی طرف آیا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہ لوگ، لوگوں کی اذیت سے بچنے کے لیے کفر کی طرف چلے جاتے ہیں۔

۳۔ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ: اذیت سے بچنے کے لیے کفر کی طرف جانے والے لوگ اگر دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے فتح و نصرت مل جاتی ہے تو وہ ضرور کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔

آیت کے اس جملے کی وجہ سے کچھ مفسرین اس آیت کو مدنی خیال کرتے ہیں چونکہ مکہ میں مسلمانوں کو کوئی فتح و نصرت نہیں ملی تھی۔

ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے وجود کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ مکہ میں نفاق کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اسلام کا اظہار کرے اور دل میں کفر رکھے۔ مکہ میں اس کا بالعکس ہو سکتا ہے، دل میں ایمان رکھے اور کفر کا اظہار کرے۔ یہ نفاق نہیں ہے۔ ضرورت کے وقت اس کی اجازت بھی ہے۔

اس موقف پر یہ سوال آتا ہے کہ مدینہ میں کسی مسلمان کو ایسی اذیت نہیں ہوتی تھی کہ وہ دوبارہ کفر کی طرف چلا جائے۔ لہٰذا فتح و نصرت اور نفاق کی ایسی تشریح درکار ہے جو مکی حالات کے ساتھ سازگار ہو۔

المیزان فتح و نصرت کی تشریح کرتی ہے:

نصرت، فتح و غنیمت میں منحصر نہیں ہے بلکہ آسودگی بھی اس کا مصداق ہو سکتی ہے۔ ساتھ قرآن میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ نصرت حاصل بھی ہوئی ہے۔ چنانچہ ان شرائط کے ساتھ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ اگر نصرت آگئی کی تعبیر اختیار فرمائی جو واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتی اور نفاق سے مراد یہ ہے کہ اسلام کا اظہار کرنے کے بعد وہ دوبارہ کفر کی طرف سے لوٹ گئے۔

میرے نزدیک لغوی اعتبار سے نفاق ایسے لوگوں پر بیشتر صادق آتا ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرتے ہیں چونکہ نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں جس میں ایک طرف سے داخل ہوتا ہے دوسری طرف سے نکل جاتا ہے۔ ان میں ایک طرف سے ایمان داخل ہوا پھر نکل گیا تو یہ نفاق ہو گیا۔

بعض مکی نفاق کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ یہ لوگ اذیت کی وجہ سے دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے تھے مگر وہ مسلمانوں سے اس کفر کو چھپاتے تھے اور اسلام کا اظہار کرتے تھے۔

چنانچہ سورہ نحل آیت ۱۰۶ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مرتد ہو گئے اور دل کھول کر (شرح صدر کے ساتھ) کفر اختیار کیا۔ ان پر اللہ کا غضب ہے۔

اہم نکات

۱۔ دنیا کی اذیت کا عذاب الٰہی کے ساتھ موازنہ نہیں ہو سکتا۔

۲۔ ایمان راسخ نہیں ہے تو آزمائش کا متحمل نہیں ہوتا۔


آیات 10 - 11