قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ﴿۱۱۱﴾ۙ

۱۱۱۔ انہوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے والے( ہرکاروں) کو شہروں میں روانہ کر دو۔

یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں،

وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ فِرۡعَوۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے (اور) کہنے لگے:اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ ملے گا؟

قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔فرعون نے کہا:ہاں یقینا تم مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحۡنُ الۡمُلۡقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔انہوں نے کہا: اے موسیٰ! پہلے تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟

قَالَ اَلۡقُوۡا ۚ فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُمۡ وَ جَآءُوۡ بِسِحۡرٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ۚ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ﴿۱۱۷﴾ۚ

۱۱۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔

117۔ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ معجزہ قانون طبیعت کی عام دفعات سے ہٹ کر ہوتا ہے البتہ معجزات کے اپنے ناقابل تسخیر علل و اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ جو لوگ معجزات کو خارق عادت نہیں بلکہ قانون طبیعت کی عام دفعات کے دائرے میں داخل سمجھتے ہیں وہ دراصل اللہ کو نہ صرف فاعل مختار نہیں مانتے بلکہ ان کے نزدیک اللہ سے امور اس طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح آگ سے حرارت اور پانی سے رطوبت صادر ہوتی ہے۔

جو لوگ معجزات کو قانون طبیعت سے بالاتر نہیں سمجھتے وہ فاعل مختار اللہ کو نہیں بلکہ ایک غیر شعوری فاعل طبیعیت کو خدا مانتے ہیں۔

اگر اللہ بے جان مادے سے عام طریقے سے اژدھا بنا سکتا ہے تو فوراً بھی بنا سکتا ہے کیونکہ عام طریقے کا خالق بھی اللہ ہے اور وہ اپنے کسی عمل میں عادت اور زمانے کا محتاج نہیں ہے۔

فَوَقَعَ الۡحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾ۚ

۱۱۸۔ اس طرح حق ثابت ہوا اور ان لوگوں کا کیا دھرا باطل ہو کر رہ گیا۔

فَغُلِبُوۡا ہُنَالِکَ وَ انۡقَلَبُوۡا صٰغِرِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ۚ

۱۱۹۔ پس وہ وہاں شکست کھا گئے اور ذلیل ہو کر لوٹ گئے۔

وَ اُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ۚۖ

۱۲۰۔اور سب جادوگر سجدے میں گر پڑے۔

120۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر جادوگر ایمان و یقین کی اس منزل پر پہنچ گئے کہ اس ایمان نے انہیں سجدے میں گرا دیا، جو لوگ جادو کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں ان پر معجزے کی حقانیت بہتر طور پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اسی لیے جادوگر چیلنج کے مقام سے تسلیم و رضا کی منزل، غرور و تکبر سے سجدہ کی منزل اور کفر و عناد سے ایمان و ایقان کی منزل پر فائز ہو گئے۔