آیات 109 - 112
 

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۹﴾ۙ

۱۰۹۔قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: یہ یقینا بڑا ماہر جادوگر ہے۔

یُّرِیۡدُ اَنۡ یُّخۡرِجَکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ ۚ فَمَا ذَا تَاۡمُرُوۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ یہ تمہیں تمہاری سر زمین سے نکالنا چاہتا ہے، بتاؤ اب تمہاری کیا صلاح ہے؟

قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ﴿۱۱۱﴾ۙ

۱۱۱۔ انہوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے والے( ہرکاروں) کو شہروں میں روانہ کر دو۔

یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں،

تفسیر آیات

۱۔ یُّرِیۡدُ اَنۡ یُّخۡرِجَکُمۡ: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) کی طرف سے ایک لاٹھی کے اژدھا بننے سے یہ خطرہ کیوں لاحق ہوا کہ یہ دو آدمی فرعون جیسے وسیع و عریض سلطنت کے مالک کو ان کی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ جب کہ حضرت موسیٰ (ع) نے نہ اس کے تخت و تاج کے خلاف کوئی بات کی، نہ سرزمین سے بے دخلی کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسیٰ (ع) نے تو صرف یہ فرمایا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں، تم بنی اسرائیل کو اپنی غلامی کی قید و بند سے آزاد کر دو بلکہ حضرت موسیٰ (ع) تو خود فرعون کی سرزمین سے نکلنا چاہتے تھے۔

جواب یہ ہے کہ فرعون کی بادشاہت و سلطنت کی بنیاد اس کے رب اعلیٰ ہونے اور سورج دیوتا کا مظہر ہونے پر استوار تھی۔ فرعون کی حاکمیت اعلیٰ اس تصور پر قائم تھی کہ وہ یہ حق سور ج دیوتا کا مظہر ہونے کی بنیاد پر رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ (ع) نے جب معجزہ دکھا کر یہ اعلان کیا کہ رب العالمین کا نمائندہ میں ہوں تو سلطنت فرعون کی قانونی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ (ع) کا اعلان فرعون کا تختہ الٹنے کے اعلان کے مترادف تھا۔ اس کی سلطنت کے غیر قانونی ہونے کا اعلان تھا۔ اس کے اقتدار کا ظالمانہ ہونے کا انکشاف تھا۔ اگر موسیٰ (ع) کا رب، رب العالمین ہے تو حکم اس کا چلے گا، اطاعت اس کی ہو گی اور شریعت اس کی نافذ ہو گی۔ فرعون کی حکومت و سلطنت پر خط بطلان کھنچے گا۔

۲۔ قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ: حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعونیوں نے اس لیے مہلت دی کہ جادو کو جادو سے توڑ دیا جائے تو مؤثر ثابت ہو گا، جب کہ فوری قتل وغیرہ سے ممکن ہے لوگ موسیٰ (ع) کو نبی برحق سمجھنے لگ جائیں۔

۳۔ یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ: مصر کی عبادت گاہوں میں کاہنوں کا یہی مشغلہ ہوتا تھا۔ تقریباً بت پرستوں میں سحر کو دین کے ساتھ مربوط گردانتے تھے۔ چنانچہ کاہنوں اور بتوں کے مجاوروں میں سحر کا عمل عام تھا۔


آیات 109 - 112