آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ القدر

اس سورۃ مبارکہ کا نام لفظ الۡقَدۡرِ سے ماخوذ ہے جو پہلی آیت میں مذکور ہے۔

یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی؟ اس میں اختلا ف ہے۔ اکثر نے مکی کہا ہے لیکن اس سورۃ مبارکہ کے شان نزول میں جو روایت ہے اس سے اس کا مدنی ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

اس سورۃ مبارکہ کا مضمون نہایت اہمیت کا حامل، امت محمدی کے لیے ایک بہت بڑی نعمت اور احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک رات ایسی عنایت فرمائی جو ایک عمر (۸۳ سال) کے برابر بلکہ بہتر ہے۔

روایت ہے:

رأی رسول اللّٰہ ص فی نومہ کأَنّ قروداً تصعد منبرَہُ، فَغَمَّہُ، فأنزل اللّٰہ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ۔ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ﴿﴾ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۔ تملکُہُ بنُو أمیّۃ لیس فیہا لیلۃُ قَدْرٍ۔ (تفسیر القمی۲: ۴۳۱)

رسول اللہ نے (ص)خواب میں دیکھا کہ بندر آپ (ص) کے منبر پر اچھل کود کر رہے ہیں، آپؐ اس سے غمگین ہوئے تو اللہ نے یہ آیات نازل کیں: ’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔ اور آپ کو کس چیزنے بتایا شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ بنو امیہ اس پر حکومت کریں گے جس میں شب قدر نہیں ہو گی۔

ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ قدر کی رات اس مدت کے ثواب سے بہتر ہے جو بنی امیہ کے مظالم اور بالادستی جیسی آزمائش اور امتحان میں صبر کرنے والے کو ملنا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾

۱۔ ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ۔

تفسیر آیات

ہم نے قرآن شب قدر میں نازل کیا۔ کیا قرآن دفعتاً نازل ہوا ہے یا تدریجاً۔ اگر دفعتاً نازل ہوا ہے تو کہاں کس پر نازل ہوا؟ اس کا شافی جواب نہایت تحقیق طلب ہے چونکہ ایک طرف مسلم ہے کہ قرآن کا نزول ۲۳ سالوں پر محیط ہے۔ دوسری طرف قرآن کی بعض آیات کے مطابق قرآن ماہ رمضان اور شب قدر میں نازل ہوا ہے۔

پہلے ہم قرآن کے تدریجی نزول پر دلالت کرنے والی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا﴿﴾ ( ۲۵ فرقان: ۳۲)

اور کفار کہتے ہیں: اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

دوسری آیت یہ ہے:

وَ قُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا﴿﴾ (۱۷ بنی اسرائیل: ۱۰۶)

اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔

قرآن کے دفعتاً نازل ہونے پر بظاہر دلالت کرنے والی آیات:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ﴿﴾ (۹۷ قدر: ۱)

ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔۔ (۲ بقرہ: ۱۸۵)

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ۔۔۔ (۴۴ دخان: ۳)

ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔

اگر ہم ان آیات میں قرآن سے مراد پورا قرآن لیتے ہیں تو اس صورت میں یہ آیات قرآن کے دفعتاً نازل ہونے پر دلیل بن سکتی ہیں لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ ایک آیت اور ایک سورہ پر بھی قرآن صادق آتا ہے تو اس صورت میں یہ آیات پورے قرآن کے دفعتاً نازل ہونے پر دلیل نہیں بن سکتیں۔ محققین کا موقف ہے:

و یطلق علی مجموع القرآن و علی ابعاضہ۔

اور پورے پر اور بعض پر قرآن صادق آتا ہے۔

وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۰۱)

اور اگر ان کے بارے میں نزول قرآن کے وقت پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے بعض پر قرآن صادق آتا ہے۔

ان دو باتوں کو جمع کرنے کے لیے متعدد موقف اختیار کیے گئے ہیں:

i۔ قرآن شب قدر کو دفعتاً قلب رسولؐ پر نازل ہوا اور ۲۳ سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب وحی تدریجاً تبلیغ فرمایا۔

ii۔ قرآن دفعتاً آسمان اول یا بیت المعمور یا بیت العزت میں نازل ہوا پھر تدریجاً بذریعہ وحی قلب رسولؐ پر نازل ہوا۔ احادیث سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔

iii۔ شب قدر کو قرآن کا نزول شروع ہوا بعد میں تدریجاً اس کی تکمیل ہوئی۔

iv۔ قرآن دوبار نازل ہوا ہے: ایک بار خلاصے اور کلیات کی صورت میں دفعتاً ایک شب میں قلب رسولؐ پر نازل ہوا پھر تفصیلات کے ساتھ تدریجاً نازل ہوا ہے۔ اس موقف کو بعض محققین کی طرف سے پذیرائی ملی ہے اور وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں:

کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ﴿﴾ (ھود: ۱)

یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر باحکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل بیان کی گئی ہے۔

لیلۃ القدر تقدیر ساز رات

اس مبارک رات کو قدر کی رات اس لیے کہا ہے کہ اس شب میں لوگ سال بھر کے لیے اپنی تقدیر اور نصیب بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے پورے سال کی قسمت ایک رات میں بہتر کرنے کا موقع فراہم فرمایا ہے۔

اس کی صورت یہ ہے کہ شب قدر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے ایک ہزار مہینوں (۸۳ سال) سے بہتر بنایا ہے۔ یہ نہیں فرمایا: ہزار مہینوں کے برابر ہے بلکہ فرمایا: بہتر ہے۔ کس قدر بہتر ہے؟ دوگنا، دس گنا اور۔۔۔۔ اسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہزار مہینوں سے کس قدر بہتر ہے۔

دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ دعا تقدیر ساز ہوتی ہے۔ یعنی دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے۔ یہ پورے سال کے دوران کسی بھی دن، کسی بھی وقت کی جانے والی دعا کے بارے میں ہے۔ ا ب اگر ایک مومن صدق دل سے شب قدر کو دعا کرتا ہے تو ہزار مہینوں کی دعاؤں سے بہتر ہے۔ شب قدر کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے تو اس رات کی دعا اور عبادت سے تقدیر کا بدل جانا ناقابل فہم نہیں ہے۔

لہٰذا شب قدر کو سال بھر کی تقدیر بنتی ہے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ بالجبر مسلط فرماتا ہے بلکہ اس رات میں بندے کے عمل کے مطابق فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے کہ فلاں بندہ کیا کچھ عمل کرنے والا ہے یا عمل کرنے والا نہیں ہے تاہم اللہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں فرماتا بلکہ بندے سے عمل صادر ہونے اور اس کی جانب سے اپنے میں اہلیت پیدا کرنے کے بعد اللہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

لہٰذا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ سے فیصلہ لینا بندے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں رحمت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی اہلیت پیدا کرنا بندے کے ہاتھ میں ہے۔


آیت 1