آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ العلق

اس سورۃ مبارکہ کی دوسری آیت میں مذکور عَلَقٍ سے سورۃ موسوم ہوئی ہے۔

سورۃ کی ابتدائی پانچ آیات کے بارے میں اکثر کا اتفاق ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی آیات ہیں۔ انہی آیات سے وحی کا آغاز ہوا ہے۔

وحی کے بارے میں اہل سنت کے مصادر میں روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں تھے۔ فرشتۂ وحی نے آپؐ سے کہا: اقرأ، پڑھو۔ تو آپؐ نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس پر فرشتے نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ آپ کو قوت برداشت سے زیادہ اذیت ہوئی۔ تین بار اسی طرح فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھنے کا کہا اور نفی میں جواب سن کر پھر آپ کو قوت برداشت سے زیادہ اذیت دی۔ پھر کہا: اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔۔۔ تا آخر۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانپتے لرزتے حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے ۔ حضرت خدیجہ نے تسلی دی کہ آپ کے ساتھ جو ہو رہا ہے، خیر ہے، نہ گھبرائیں۔ پھر حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل آپ کو باخبر کرتے ہیں کہ یہ نبوت ہے اور یہ وہی فرشتۂ وحی ہے جو موسیٰ پر نازل ہوتا تھا۔

مقام تعجب ہے: اللہ تعالیٰ اپنی رسالت ایسے شخص کے سپرد کرتا ہے جسے اتنا بھی ادراک نہیں جتنا جناب خدیجہ اور ورقہ بن نوفل کو ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اس روایت کو مسترد فرمایا ہے۔ ہم نے کئی بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وحی کا تعلق حواس خمسہ سے نہیں ہے بلکہ وحی قلب یعنی رسول کے وجود کے عین مرکز پر اترتی جہاں شک و تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ (اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔

تفسیر آیات

اہل ارض پر اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہوا۔ یعنی رحمۃ اللعالمین پر ایک عظیم انسان ساز انقلاب کے لیے وحی کا نزول شروع ہوا جس کی ابتدا اس حکم سے ہوئی: اِقۡرَاۡ! پڑھ! لکیروں کی تحریر نہیں بلکہ کائنات کی کھلی ہوئی کتاب پڑھ۔ اس پڑھائی کی ابتدا اپنے پروردگار کے نام سے ہو اور اس کتاب کا پہلا باب اللہ تعالیٰ کی خلاقیت کا مطالعہ ہو۔ دوسرا باب اس کائنات کے عظیم معجزہ انسان کی خلقت ہو۔ پھر اس انسان کی تعلیم اور اس کے اہم ترین ذریعہ قلم کا ذکر شروع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس عظیم رسالت کا عنوان قرائت و کتابت ہے۔ یعنی پڑھنا لکھنا، انسان کی تعلیم، ترقی اور تہذیب و تمدن میں ایک عظیم انقلاب کی بنیاد ہے۔

۱۔ اِقۡرَاۡ: پڑھ! کس چیز کے پڑھنے کا حکم ہے؟ بعض کے نزدیک قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ بعض دیگر کے نزدیک ما یوحی الیک۔ وحی کے پڑھنے کا حکم ہے۔ بعض دیگر کے نزدیک اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ اللہ کا نام پڑھنے کا حکم ہے اور باء کو زائدہ سمجھتے ہیں۔ اسی سے یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ ہر سورہ کی ابتدا میں بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھنے کا حکم ہے۔ اسی سے بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ہر سورہ کا جزو ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس قول کے نزدیک ہے زمخشری کا موقف، جو کہتے ہیں: بِاسۡمِ رَبِّکَ کا محل منصوب ہے حال ہونے کی بنیاد پر یعنی اللہ کے نام سے شروع کرتے ہوئے پڑھ ۔ پہلے بسم اللہ پھر پڑھنا شروع کر۔

۲۔ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ: اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ رب وہ ہوتا ہے جو خالق ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ مشرکین کے نزدیک بھی اللہ خالق ہے۔

خَلَقَ: اس لفظ کے بعد نہیں فرمایا کس چیز کا خلق کرنے والا۔ متعلق خلق کا ذکر نہ کرنے سے خلق کی تمام اقسام شامل ہوتی ہیں۔


آیت 1