آیات 14 - 16
 

فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾

۱۴۔ پس میں نے تمہیں بھڑکتی آگ سے متنبہ کر دیا۔

لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اس میں سب سے زیادہ شقی شخص ہی تپے گا،

الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ جس نے تکذیب کی اور منہ موڑ لیا ہو۔

تشریح کلمات

تَلَظّٰی:

( ل ظ ی ) کے معنی آگ بھڑک اٹھنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ: میں فاء تفریع کے لیے ہے کہ جب ہدایت میرے ذمے ہے تو میں نے تمہاری تنبیہ کی ہے اور اس آگ سے بچنے کی راہنمائی کی ہے جو بھڑکتی ہو گی۔

۲۔ لَا یَصۡلٰىہَاۤ: ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس آگ سے جھلسنے والا کون ہو گا۔ وہ شقی ترین ہو گا۔

۳۔ الَّذِیۡ: یہ بھی بتایا کہ شقی ترین کون ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلانے، توحید اور آخرت کو نہ ماننے والا ہے اور جب اسے حق اور نجات کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتا ہے۔ یہ ہے اشقی کی تعریف۔

الۡاَشۡقَی: ’’شقی ترین‘‘ جہنم کی بھڑکتی آگ میں جائے گا سے یہ مفہوم نہیں نکلتا ہے کہ ’’شقی‘‘ جہنم نہیں جائے گا۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ تکذیب کرنے والا دوسروں کی بہ نسبت شقی ترین ہے۔ صرف شقی کے بارے فرمایا:

فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ﴿﴾ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ شَقُوۡا فَفِی النَّارِ لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ شَہِیۡقٌ﴿﴾ (۱۱ ھود: ۱۰۵۔۱۰۶)

پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔


آیات 14 - 16