آیات 17 - 20
 

وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور نہایت پرہیزگار کو اس (آگ) سے بچا لیا جائے گا،

الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ جو اپنا مال پاکیزگی کے لیے دیتا ہے۔

وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ اتارنا چاہتا ہو۔

اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ وہ تو اپنے رب اعلیٰ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ الۡاَتۡقَی: سب سے زیادہ متقی جہنم کی اس آگ بچے گا۔ یعنی جہنم کی آگ سے اپنا بچاؤ کرنے والا دوسروں کی بہ نسبت سب سے زیادہ متقی ہے۔ کم و بیش ہر شخص ہر قسم کے خطرات سے اپنا بچاؤ کرتا ہے لیکن یہ شخص ان میں زیادہ بچاؤ کرنے والا ہے۔

۲۔ الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ: یہاں سے اس متقی کی تعریف شروع ہو گئی۔ پہلی بات یہ ہے کہ راہ خدا میں جب مال خرچ کرتا ہے تو اس کام کا محرک اور نیت یہ ہے کہ مالی ایثار کے ذریعے اپنے نفس کو بخل اور خواہشات پرستی جیسی رذیل صفات سے پاک کرے۔ یہاں یَتَزَکّٰی سے مراد نفس کی تطہیر ہو سکتی ہے:

خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۱۰۳)

(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔

۳۔ وَ مَا لِاَحَدٍ: دوسری بات یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مال دیتا ہے وہ کسی احسان کے بدلے میں نہیں کہ چونکہ اس نے مادی فائدہ پہنچایا تھا اس کے بدلے میں اسے مالی فائدہ دے۔ یہ سودے بازی ہے، انفاق فی سبیل اللہ نہیں ہے۔

۴۔ اِلَّا ابۡتِغَآءَ: مال خرچ کرنے کا واحد مقصد اپنے رب اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ مال خرچ کرنے میں درجہ اس مال کی مقدار میں نہیں بلکہ خرچ کرنے والے کے اخلاص، نیت اور درجہ ایمان و ایقان میں ہے۔ ایک شخص لاکھوں روپیہ انفاق کرتا ہے لیکن اس انفاق کا محرک رضائے الٰہی نہیں ہے تو اس انفاق کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ دوسرا شخص چند روپے خرچ کرتا ہے اس کا درجہ ایمان قوی اورمحرک رضائے الٰہی ہے، اس کے چند روپے اللہ کے نزدیک قیمتی ہیں۔


آیات 17 - 20