آیت 12
 

اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡہُدٰی ﴿۫ۖ۱۲﴾

۱۲۔راستہ دکھانا یقینا ہماری ذمے داری ہے

تفسیر آیات

ہدایت کی دو قسمیں ہیں: ایک راستہ دکھانا۔ دوسری منزل تک پہنچا دینا۔ اسی طرح ہدایت کی دوسرے اعتبار سے دو قسمیں اور ہیں: ایک ہدایت تشریعی اور دوسری ہدایت تکوینی۔

آیت میں علی الاطلاق ہدایت کا ذکر ہے لہٰذا اس میں تمام قسم کی ہدایتیں شامل ہیں چونکہ ہدایت کی تمام قسمیں اللہ کی طرف سے رحمت ہیں اور رحمت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر واجب کر رکھا ہے:

کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۵۴)

تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔

نیز ارشاد فرمایا:

وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ﴿﴾ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ۔۔۔۔ (۱۱ ہود: ۱۱۸۔ ۱۱۹)

مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے پروردگار نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔

ہدایت بمعنی راستہ دکھانے کے بارے میں فرمایا:

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿﴾ (۷۶ انسان: ۳)

ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ وہ ناشکرا۔

ہدایت بمعنی منزل تک پہنچانے کے بارے میں فرمایا:

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی ﴿﴾ (۲۰ طٰہ: ۱۲۳)

جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ شقی۔

ہدایت تکوینی کے بارے میں فرمایا:

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿﴾ (۲۰ طٰہ: ۵۰)

موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

ہدایت تشریعی کے بارے میں وہی سورہ انسان کی آیت ۳ ہے۔ ہدایت بمعنی راستہ دکھانا سب کے لیے ہے جب کہ منزل تک پہنچانے والی ہدایت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو راستہ دکھانے والی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

ہدایت تکوینی، خلقت جبلت اور فطرت میں ودیعت ہوتی ہے جب کہ ہدایت تشریعی انبیاء % کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی جاتی ہے۔

یہ تمام ہدایات رحمت ہیں اور رحمت اللہ نے اپنے پر لازم قرار دے رکھی ہے۔ لہٰذا ہدایت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر لازم قراردی ہے۔


آیت 12