آیت 12
 

وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آجائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ: کفر کی امامت کرنے والوں میں دو باتیں ہوتی ہیں : ایک بد عہدی اور دوسری دین کی عیب جوئی۔

۲۔ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ: دین کی عیب جوئی میں قرآن کی عیب جوئی، رسولؐ کی عیب جوئی وغیرہ بھی شامل ہے۔ اس عیب جوئی کی وجہ سے دوسرے لوگ اسلام سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ ضلالت کا سرچشمہ قرار پاتے ہیں اور کفر کے امام ثابت ہوتے ہیں۔

۳۔ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ: مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کفر کی اس جڑ اور اس سرچشمے کا مقابلہ کرو۔ فساد کے اصل منبع کو سامنے رکھ کر جہاد کرو۔ ان کے ساتھ کسی معاہدے کے بھروسے میں نہیں رہنا چاہیے۔

۴۔ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ: شاید وہ اس اقدام سے باز آ جائیں۔ یعنی اس مقابلہ کا اصل مقصد کفر کو جارحیت سے باز رکھنا ہے۔ ان کے خلاف جارحیت کرنا مقصود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ آیات قرآنی کسی قوم کے باے میں نازل ہوتی ہیں لیکن وہ اس قوم تک محدود نہیں رہتیں بلکہ بفرمان حدیث:

یجری فیمن بقی کما یجری فی من مضی ۔ (الکافی ۱:۱۹۱)

آیات قرآنی آنے والوں پر ایسے ہی صادق آتی ہیں جیسے گزشتگان پر صادق آتی ہے۔

اور ایک تفسیری کلیہ ہے۔

العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ۔

لفظ کے عموم کو دیکھا جاتا ہے (نزول آیت کے) سبب خاص کو نہیں۔

اس واضح مطلب کی روشنی میں ہم درج ذیل احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ میں اس آیت کی تلاوت فرمائی، پھر فرمایا:

اما واللہ لقد عھد الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقال: یا علی لتقاتلن الفئۃ الناکثۃ والفئۃ الباغیۃ والفئۃ المارقۃ ۔۔۔۔ ( مجمع البیان ذیل آیت۔ مستدرک الوسائل ۱۱: ۶۴ باب حکم قتال البغاۃ ۔۔۔۔)

آگاہ رہو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وصیت فرمائی اور فرمایا: اے علی آپ کو جنگ لڑنا ہو گی عہد شکن گروہ سے، باغی گروہ سے، خارجی گروہ سے۔

الدرالمنثور میں آیا ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس آیت کی تلاوت ہوئی تو انہوں نے فرمایا: ماقوتل اہل ھذہ الایۃ بعد ۔ ابھی اس آیت کے مصداق لوگوں سے قتال عمل میں نہیں آیا اور قرب الاسناد صفحہ ۴۶ میں امالی مفید ۳۳۴ میں ، تفسیر عیاشی میں ، امالی شیخ طوسی ۱۱۳ میں اس موضوع پر قابل مطالعہ روایات موجود ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی نظام و دستور پر نکتہ چینی و عیب جوئی کرنا کفر کی رہنمائی کرنا ہے: وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ مسلمانوں کو کفر کے اس سرچشمے کا مقابلہ کرنا چاہیے: فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۔۔۔۔


آیت 12