آیات 21 - 22
 

فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ پس آپ نصیحت کرتے رہیں کہ آپ فقط نصیحت کرنے والے ہیں۔

لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ آپ ان پر مسلط نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف تعبیروں میں واضح کر کے بیان فرمایا ہے کہ رسول کا کام اللہ کا پیغام لوگوں تک بغیر کسی ابہام کے پہنچانا ہے:

وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿﴾

(۲۹ عنکبوت: ۱۸)

اس آیت میں بھی فرمایا: آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں۔ اللہ کا پیغام اور نصیحت لوگوں تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ منوانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے:

فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ ﴿﴾ (۱۳ رعد: ۴۰)

بہرحال آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔

۲۔ لَسۡتَ: ان پر اسلام مسلط کرنا، انہیں ایمان لانے پر مجبور کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ عقیدہ و ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل جبر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا چونکہ دل جبر کی منطق سمجھتا ہی نہیں۔ چنانچہ متعدد آیات میں اس بات کو بھی غیر مبہم لفظوں میں واضح فرمایا ہے کہ اس جگہ طاقت استعمال نہیں ہوتی:

وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ..... (۵۰ ق: ۴۵)

اور آپ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں، بس آپ اس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت کریں۔

اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿﴾ (۱۰یونس: ۹۹)

پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۵۶)

دین میں جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے۔


آیات 21 - 22