آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الطارق

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں واقع لفظ الطَّارِقِ سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور زمانہ نزول کا تعین نہیں ہو سکتا۔

سورۃ مبارکہ اس کی نئی تخلیق کی طرف توجہ مبذول کرا رہی ہے کہ منکرین قیامت اعادۂ حیات کس طرح ناممکن سمجھتے ہیں جب کہ یہ انسان خود اس نطفے سے پیدا ہوا جو انسان کے وجود میں بنتا ہے تو کیا وہ خالق، کائنات کے وجود میں بکھرے ہوئے ذروں سے اس انسان کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾

۱۔قسم ہے آسمان کی اور رات کو چمکنے والے کی۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الطَّارِقُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا رات کو چمکنے والا کیا ہے؟

النَّجۡمُ الثَّاقِبُ ۙ﴿۳﴾

۳۔ وہ روشن ستارہ ہے۔

تشریح کلمات

الطَّارِقِ:

( ط ر ق ) کا معنی راستے پر چلنے والا ہے مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے۔ ستارے کو بھی الطارق کہا جاتا ہے کیونکہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے۔

الثَّاقِبُ:

( ث ق ب ) اتنا روشن کہ جس چیز پر اس کی کرنیں پڑیں اسے چھید کر پار گزر جائیں۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ نے آسمان اور الطارق کے ساتھ قسم کھانے کے بعد طارق ستارے کی اہمیت واضح کرنے کے لیے وہی محاورہ استعمال فرمایا جو ہر اہم چیز کے بارے میں استعمال فرمایا ہے۔ یعنی وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ کس نے آپ کو بتایا یا آپ کیا جانیں محاورہ ہے۔ جس میں مخاطب کو مراد نہیں لیا جاتا کہ مخاطب کو اس کا علم نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ طارق کیا ہے، نہایت نادرست بات ہے۔ عرب لفظ طارق ستارے کے لیے عام استعمال کرتے تھے:

نحن بنات طارق

نمشی علی النمارق

مَاۤ اَدۡرٰىکَ کے بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ حاقہ۔


آیات 1 - 3