آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الانشقاق

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ انۡشَقَّتۡ سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ بھی ممکن ہے رسالت کے ابتدائی دنوں میں نازل ہوئی ہو جس میں قیامت کے موضوع پر زیادہ زور دیا گیا ہے چونکہ مشرکین تصور قیامت بڑے شد و مد سے مسترد کر رہے تھے۔ اس کے بعد انسان کے اللہ کے حضور پیش ہونے کے لیے تیزی سے چلنے کا ذکر ہے۔ انسان کو اس اہم راز سے آگاہ کیا گیا ہے کہ تو دن رات محنت و مشقت سے گزارتا ہے اور ایک سفر طے کر رہا ہے۔ اس سفر کا آخری مقصد و منزل اللہ کے حضور حساب کے لیے حاضری دینا ہے۔ پھر نامہ اعمال کا ذکر آتا ہے جس میں اس کی قسمت کا فیصلہ درج ہے۔

آیات کی تعداد کوفی قرائت کے مطابق ۲۵ ہے جو عاصم کے ذریعے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے منقول ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾

۱۔جب آسمان پھٹ جائے گا،

وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا جو اس کا حقدار ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اس آیت کی تفسیر میں باب مدینہ العلم حضرت علی علیہ السلام کا ایک علمی معجزہ نہایت قابل توجہ ہے۔ جس میں آپ نے دنیائے فلکیات میں پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جن ستاروں کوہم آسمان میں دیکھ رہے ہیں وہ کہکشاں ہے۔ قیامت کے دن یہ ستارے کہکشاں سے جدا ہو جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا۔ فرمایا:

انھا تنشق من المجرۃ۔ (بحار الانوار ۵۵:۸۲)

یہ آسمان کہکشاں سے پھٹ جائے گا۔

حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کسے گمان تھا کہ آسمان کہکشاں کا حصہ ہے۔

سورہ انفطار میں اس کی مزید وضاحت ہے جہاں فرمایا:

وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ ﴿﴾ (۸۲ انفطار: ۲)

جب ستارے بکھر جائیں گے۔

۲۔ وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ: یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تکوینی ہے جس کی تعمیل میں کس قسم کی تاخیر یا کوتاہی قابل تصور نہیں ہے۔ یہ حکم کن فیکون ہے۔ جس چیز کا اللہ نے ارادہ فرمایا وہ ہو جاتی ہے۔ وَ حُقَّتۡ کا معنی سزاوار سے کیا جاتا ہے۔ شاید مناسب یہ ہے کہ حُقَّتۡ سے مراد تحقق پذیری لیا جائے۔


آیات 1 - 2