آیات 34 - 36
 

فَالۡیَوۡمَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنَ الۡکُفَّارِ یَضۡحَکُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ پس آج اہل ایمان کفار پر ہنس رہے ہیں۔

عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۙ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾

۳۵۔ مسندوں پر بیٹھے (کفار کا انجام) دیکھ رہے ہیں۔

ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۳۶﴾

۳۶۔ کیا کفار کو ان کی حرکتوں کا بدلہ دیا گیا؟

تفسیر آیات

۱۔ دنیا میں چند دنوں کے لیے مومنین کا مذاق اڑاتے اور ان کی اہانت کرتے تھے۔ آج قیامت کے دن مومنین کافروں کی دائمی مذلت پر مذاق اڑا رہے ہوں گے۔ آج دنیامیں کافر لوگ مومنین کے ایمان کا مذاق اڑاتے تھے کل قیامت کے دن مومنین کافروں پر ہونے والے اہانت آمیز عذاب پر ہنس رہے ہوں گے۔ ان دونوں مذاقوں میں بڑا فرق ہے۔

۲۔ عَلَی الۡاَرَآئِکِ: مومنین مسندوں پر بیٹھ کر کافروں کو آتش عذاب میں تڑپتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ اس نظارے سے مومنین کیف و سرور کی حالت میں ہوں گے اور کافروں کو علم ہو گا کہ مؤمنین ہمارے رسوا کن عذاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان پر یہ بات گراں گزرے گی۔

۳۔ ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ: مومنین اپنے نظارے میں یہ دیکھنا چاہیں گے کہ کفار کو اپنے جرائم کا ثواب مل گیا۔ اس میں ایک طنز ہے کہ وہ ان جرائم کو نیک کام تصور کرتے تھے تو اس نیک کام کا تمہیں عذاب کی شکل میں ثواب مل رہا ہے اور عذاب کو ثواب کہنے میں خود ایک تذلیل و تحقیر ہے جیسے کافروں کو طنزیہ طور پر کہا جائے گا:

ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ﴿﴾ (۴۴ دخان: ۴۹)

چکھ (عذاب) بے شک تو (جہنم کی ضیافت میں) عزت والا اکرام والا ہے۔


آیات 34 - 36