آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ التکویر

اس سورۃ مبارکہ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ کُوِّرَتۡ سے ماخوذ ہے۔

مضمون سورۃ سے معلوم ہوتا ہے یہ سورۃ رسالت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ہے۔

سورۃ مبارکہ کا مضمون قیام قیامت کی منظر کشی پر مشتمل ہے جس میں فرمایا: قیام قیامت کے وقت موجودہ نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے پراگندہ ہو جائیں گے۔ سمندر آتشین ہو گا۔ آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ جنت و جہنم دونوں اپنے اپنے مہمانوں کی میزبانی کے لیے تیار ہوں گے۔

مضمون کا دوسرا حصہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی حقانیت پر مشتمل ہے۔ ابتدائے بعثت میں یہی دو مسائل لوگوں کے لیے موضوع بحث تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾

۱۔ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا،

وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے،

تشریح کلمات

کُوِّرَتۡ:

( ک و ر ) لپیٹ لینے کے معنوں میں ہے۔

انۡکَدَرَتۡ:

( ک د ر ) انکد کے معنی کسی چیز میں گدلا پن کے ہیں اور یہ صفا (صفائی) کی ضد ہے۔

تفسیر آیات

اس سورہ مبارکہ کی ایک سے ۱۳ تک آیات میں قیام قیامت سے متعلق ایسے حقائق بیان ہوئے ہیں جو آج کے کائناتی نظام سے مانوس ذہنوں کے لیے نہایت حیرت انگیز اور دشوار فہم ہیں کہ موجودہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا اور ایک جہان نو کی تعمیر ہو گی۔ مختلف حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان نو کا قانون زیست، موجودہ کائنات کے قانون حیات سے مختلف ہو گا۔

۱۔ اس کائناتی انقلاب کا ذکر، سورج جو مصدر حیات ہے کی تبدیلی کے ذکر سے شروع ہوتا کہ سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ ہمارے لیے سورج لپیٹ لینا آسانی سے قابل فہم نہیں ہے لیکن ہم اس کائناتی انقلاب کے حقائق سے بہت دور ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء ۱۰۴)

اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں۔

تفسیراحسن الحدیث تالیف سید علی اکبر قرشی میں سائنسدانوں کے حوالے سے لکھا ہے:

جب سورج کا مرکز بے نور ہو جائے گا تو یہ بے نور شدہ حصہ بیرونی حصے پر منتقل ہو جائے گا اور بیرونی حصہ مرکز کی طرف منتقل ہو جائے گا اور یہ وہی لپیٹ کے معنوں میں ہے۔

لیکن ہم سائنسی تھیوری سے قرآن کی تفسیر نہیں کر سکتے صرف ایک احتمال کا ذکر ہے۔

۲۔ نجوم بھی اپنی جگہ ہمارے سورج کی طرح ہیں بلکہ بعض نجوم ہمارے سورج سے کئی ملین بڑے ہیں۔ یہ سب نجوم بے نور ہو جائیں گے۔ یعنی پوری کائنات اپنی بیکراں وسعت کے باوجود بے نور اور نابود ہو جائے گی۔


آیات 1 - 2