آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ عبس

سورۃ کا نام لفظ عَبَسَ سے ماخوذ ہے جو پہلی آیت میں آیا ہے۔

یہ سورہ مکی ہے۔ آیات کی تعداد کوفہ اور حجاز کی قرائت کے مطابق ۴۲ ہے۔ دوسری قرائتوں کے مطابق ۴۱ اور ۴۰ چالیس ہے۔ سورۃ کا مضمون ایک شخص کے نابینا شخص سے ترش روئی سے پیش آنے کے ذکر پر مشتمل ہے۔

اس کے بعد انسان کی ناشکری، اس کی خلقت اور زندگی کے دورانیہ کا ذکرہے۔ پھر یہ سورۃ انسان کی تدبیر حیات میں اللہ کی قدرت کے آثار کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے۔ پھر آخرت کا مشاہدہ کراتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾

۱۔ اس نے ترشروئی اختیار کی اور منہ پھیر لیا،

اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾

۲۔ ایک نابینا کے اس کے پاس آنے پر۔

تفسیر آیات

اکثر مفسرین نے لکھا ہے:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکے کے چند بڑے سرداروں کو اسلام کی دعوت دینے میں مصروف تھے۔ اس وقت حضرت عبداللّٰہ بن ام مکتوم جو نابینا تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند اسلامی تعلیمات بیان کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مداخلت کو ناپسند فرمایا اور آپؐ نے اس سے بے رخی اختیار کی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

بعض شیعہ مصادر میں آیا ہے:

ترش روئی اختیار کرنے والا بنی امیہ کا ایک شخص تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ اس وقت عبداللہ بن ام مکتوم آیا تو اس نے منہ چڑھایا اور ترش روئی اختیار کی۔ اس شخص کی مذمت میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

اکثر سنی مفسرین کی روایات کے مطابق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے حقیقی مخاطب نہیں ہیں بلکہ ان آیات میں سر دلبراں در حدیث دیگراں کے طور پر اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے:

اس عظیم کارواں میں نابینا مؤمن کئی سرداروں سے زیادہ کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی نادار لوگ اس دین کے لیے قربانی پیش کر سکتے ہیں ورنہ مراعات یافتہ لوگ اس دین کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔

اس قسم کا طرز خطاب قرآن میں بہت زیادہ ہے کہ مخاطب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسروں کو سنانا مقصود ہے۔ چنانچہ فرمایا:

لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۶۵)

اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا۔

اس طرح حقیقی مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ وہ کردار یا وہ سوچ ہے جو دنیا والوں پر حاکم ہے، جس کے تحت ناداروں کے ساتھ بے اعتنائی برتی جاتی ہے اور تمام تر اہمیت مراعات یافتہ طبقے کو مل جاتی ہے۔

لہٰذا اس واقعے کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلطی شمار کرنا تو دور کی بات ہے، ترک اولیٰ بھی نہیں ہے۔

۱۔ عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی: سیاق آیت شیعہ روایت کے مطابق ہے چونکہ آیت میں براہ راست نبی سے خطاب نہیں فرمایا اور یہ نہیں فرمایا عَبَسْتَ تو نے ترش روئی کی بلکہ فرمایا اس نے ترش روئی کی۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترش روئی کسی اور نے کی تھی۔


آیات 1 - 2