آیات 7 - 8
 

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔اور(وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آ جائے گا اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ آ جائے جب کہ اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

لِیُحِقَّ الۡحَقَّ وَ یُبۡطِلَ الۡبَاطِلَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۚ﴿۸﴾

۸۔تاکہ حق کو ثبات مل جائے اور باطل نابود ہو جائے خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

۸۔ تاکہ حق کو ثبات مل جائے اور باطل نابود ہو جائے خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

تشریح کلمات

الشَّوۡکَۃِ:

( ش و ک ) الشوک اصل میں یہ لفظ کانٹے کے معنی میں ہے لیکن یہ طاقت اور اسلحہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی: اللہ کی طرف سے یہ اجمالی وعدہ تھاکہ تجارتی قافلے اور مسلح لشکر میں سے ایک تمہارے ہاتھ آئے گا۔ مسلمان تجارتی قافلہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور رسول اللہؐ مسلح لشکر کا رخ کرنا چاہتے تھے۔

۲۔ وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ: اللہ کی منشا یہ تھی کہ اس مرحلے میں حق کو ثبات ملے۔

۳۔ بِکَلِمٰتِہٖ: یہاں کلمات سے مراد، وعدہ ہائے نصرت ہو سکتے ہیں۔ جیسے فرمایا:

وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (۳۷ صافات: ۱۷۱تا ۱۷۳)

اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں ، اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

۴۔ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ: اور کافروں کی جڑ کٹ جائے۔ چنانچہ جنگ بدر کے بعد ابو جہل جیسے کفر کی جڑیں کٹ گئیں۔

اس آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اسلام اور جاہلیت میں سے کس نے زندہ رہنا ہے۔ حق اور باطل میں سے کس کو ثبات ملنا ہے اور کس نے مٹ جانا ہے۔ اس میں لوگوں کی خواہش اور اللہ کے ارادے میں نمایاں فرق بتایا گیا ہے کہ لوگ قافلے پر حملہ کرنا چاہتے تھے جہاں مال و متاع ہے اور خطرہ جان بھی نہیں ہے لیکن عاقبت کے اعتبار سے یہ فیصلہ کن اقدام نہ ہوتا اور لوگ مال و دولت کے لالچ میں آکر اصل مقصد سے دور نکل جاتے جیسا کہ احد کی جنگ میں دیکھنے میں آیا اور اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اس موقع پر حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے اور یہ لشکر کا مقابلہ کرنے میں ہے۔ جیسا کہ بعد کے حالات نے بتایا۔

اہم نکات

۱۔ اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے سہل طلبی درست نہیں ہے: وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ ۔۔۔۔


آیات 7 - 8