آیات 1 - 6
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المرسلات

اس سورۃ کا نام الۡمُرۡسَلٰتِ پہلی آیت میں یہ لفظ مذکور ہونے کی وجہ ہوا ۔

یہ سورۃ مکی ہے اور عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق یہ سورۃ منیٰ میں ایک غار میں نازل ہوئی۔ یہ غار منیٰ میں کوہ ثبیر کے بالمقابل موجود ہے۔ آیات کی تعداد سب کے نزدیک پچاس ہے۔

اس سورۃ میں قیامت کے اثبات کی دلیل متعدد اسلوب میں قائم کی ہے اور آیہ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ کی دس بار تکرار کی گئی ہے۔

اس سورۃ مبارکہ کے مضمون سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تصور معاد پر اعتراض شدید ہو رہا تھا اور اسے ایک واہمہ تصور کیا جاتا تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ان (فرشتوں)کی جو مسلسل بھیجے جاتے ہیں،

فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پھر تیز رفتاری سے چلنے والے ہیں،

وَّ النّٰشِرٰتِ نَشۡرًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ پھر (صحیفوں کو) کھول دینے والے ہیں،

فَالۡفٰرِقٰتِ فَرۡقًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ پھر (حق و باطل کو) جدا کرنے والے ہیں،

فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ پھر یاد (خدا دلوں میں) ڈالنے والے ہیں،

عُذۡرًا اَوۡ نُذۡرًا ۙ﴿۶﴾

۶۔ حجت تمام کرنے کے لیے ہو یا تنبیہ کے لیے:

تشریح کلمات

عُرۡفًا:

( ع ر ف ) عرف الفرس گھوڑے کے ایال۔ عرف الدیک مرغ کی کلغی۔ کہتے ہیں: جاء القطا عرفاً۔ قطا پرندے یکے بعد دیگرے آئے۔

تفسیر آیات

ان آیات میں جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، پھر ان کی قسمیں کھائی ہیں، وہ بعض کے نزدیک ہوا اور بعض کے نزدیک فرشتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان سے مراد فرشتے ہی ہو سکتے ہیں۔ اس پر آیات ۵ اور ۶ قرینہ ہیں۔ فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا ذکر سے مراد جو بھی ہو اسے لانے والی ہوا نہیں ہو سکتی۔

۱۔ وَ الۡمُرۡسَلٰتِ: فرشتے بھی اللہ کی طرف سے رسول ہوتے ہیں:

اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ۔۔۔۔ (۲۲ حج: ۷۵)

اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے۔

یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۲)

وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔

عُرۡفًا: قسم ہے ان فرستادگان کی جو پے درپے حکم خدا لے کر اطراف کائنات کی طرف روانہ کیے جاتے ہیں۔

۲۔ فَالۡعٰصِفٰتِ: پس یہ فرشتے اطاعت حکم الٰہی میں تیزی دکھاتے ہیں:

وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴿۵۰﴾ (۱۶ نحل: ۵۰)

اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

۳۔ وَّ النّٰشِرٰتِ: اطراف کائنات میں اللہ تعالیٰ کے احکام پھیلاتے ہیں یا اللہ کی رحمتیں پھیلانے والے ہیں۔

وَ یَنۡشُرُ رَحۡمَتَہٗ ؕ وَ ہُوَ الۡوَلِیُّ الۡحَمِیۡدُ﴿۲۸﴾ (۴۳ شوری: ۲۸)

اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارساز، قابل ستائش ہے۔

۴۔ فَالۡفٰرِقٰتِ: حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے میں فرشتوں کا ایک اہم کردار ہے اسی طرح حلال و حرام کو واضح کرنے میں بھی۔

۵۔ فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا: ذِکۡرًا سے مراد اگر قرآن لیا جائے تو معنی یہ ہوں گے: قسم ہے ان فرشتوں کی جو قرآن کو بذریعہ وحی انبیاء کے قلوب میں ڈالنے والے ہیں۔ اگر ذِکۡرًا سے مراد نصیحت ہے تو بھی مراد وہ وحی الٰہی ہو سکتی ہے جو لوگوں کی نصیحت پر مشتمل ہے۔

۶۔ عُذۡرًا اَوۡ نُذۡرًا: یہ ذکر عذر اور تنبیہ کے طور پر دلوں پر نازل کرتے ہیں۔ عُذۡرًا ان لوگوں کے بارے میں جو اس قرآن یا نصیحت کو نہیں مانتے اور اس کی تکذیب کرتے ہیں ان پر حجت پوری کرنے کے لیے ہے جیسا کہ فرمایا:

وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۶۴﴾ (۷ اعراف: ۱۶۴)

اور جب اس میں سے ایک فرقے نے کہا: ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور (اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔


آیات 1 - 6