آیات 31 - 33
 

فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ پس اس نے نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی

وَ لٰکِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ بلکہ تکذیب کی اور روگردانی کی۔

ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾

۳۳۔ پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔

تشریح کلمات

یَتَمَطّٰی:

( م ط ی ) اس کے اصل معنی المطا پیٹھ کو بڑھانے اور لمبا کرنے کے ہیں جیسا کہ انگڑائی لیتے وقت انسان کرتا ہے اور کنایہ کے طور پر اکڑ کر چلنے کے معنی میں آتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ بعض روایات کے مطابق ان جملوں کا اشارہ ابوجہل کی طرف ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق ان جملوں کا اشارہ اس شخص کی طرف ہے جس کا ذکر اس آیت میں آیا: اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ۔ (۷۵ قیامت: ۳)

بہرحال اس شخص نے نہ ان باتوں کی تصدیق کی جن کی تصدیق پر دلیل قائم تھی جیسے رسالت، وحی، قرآن اور قیامت، نہ اللہ کی بندگی سے مربوط کوئی عمل کیا جیسے نماز بلکہ تصدیق و عمل کی جگہ تکذیب اور روگردانی کی۔

آیت سے اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ تصدیق و ایمان کا لازمی نتیجہ بندگی اور عمل ہے اور عمل میں سب سے پہلے نماز کا درجہ آتا ہے۔ تصدیق و ایمان کی نفی کے بعد ہر عمل کی نفی ہو ہی جاتی لیکن وَ لَا صَلّٰی نہ نماز پڑھی فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا: کفر کی ایک علامت نماز نہ پڑھنا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام روایت میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

مَا بَیْنَ الْکُفْرِ وَ الْاِیْمَانِ اِلَّا تَرْکُ الصَّلَاۃِ۔ (الوسائل ۴: ۴۳)

کفر اور ایمان کے درمیان صرف ترک نماز کا فاصلہ ہے۔

۲۔ ثُمَّ ذَہَبَ: سورہ قیامت کی ان آیات کو سن کر اس نے اس میں مذکورہ تمام حقائق کو جھٹلا کر تکبر اور نخوت کے انداز میں اپنے اہل و عیال کا رخ کیا۔ ایسا شخص اللہ کے غضب کا سزاوار ہے۔


آیات 31 - 33