آیات 43 - 47
 

قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ وہ کہیں گے: ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے،

وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے،

وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اور ہم بیہودہ بکنے والوں کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے تھے،

وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۴۶﴾

۴۶۔اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔

حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ ﴿ؕ۴۷﴾

۴۷۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ: اہل جہنم نے اصحاب یمین کے جواب میں چار باتوں کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے وہ جہنم میں مبتلائے عذاب ہیں:

پہلی بات: ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے۔ یعنی ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔

دوسری بات: ہم بھوکوں کو کھلاتے نہیں تھے۔ یعنی ترک نماز کی وجہ سے خالق سے دور اور ترک اطعام کی وجہ سے مخلوق سے دور ہونے کی وجہ سے ہم جہنم کے نزدیک ہو گئے۔

تیسری بات: ہم دین، اسلام، قرآن، مذہبی تعلیمات کے خلاف بیہودگی کرنے والوں کی محافل میں بیٹھ کر دین اور دین داروں کا مذاق اڑاتے تھے۔ نمازیوں کا تحقیر آمیز لفظوں میں ذکر کرتے تھے۔ غریب پروری کو حماقت تصور کرتے تھے۔

چھوتھی بات: ہم روزجزا کو جھٹلاتے تھے۔ قیامت اور آخرت کو ایک واہمہ قرار دیتے تھے۔

۲۔ حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ: اسی اثنا میں ہمیں موت نے آ لیا اور موت آنے پر ہم پر یہ راز کھل گیا کہ آخرت برحق تھی اور ہم گمراہی میں تھے۔

ان آیات سے ایک تو یہ بات بظاہر سامنے آتی ہے کہ کافر آخرت میں صرف شرک اور انکار آخرت کے منکر ہونے، بالفاظ دیگر اصول ہی کے منکر ہونے پر جہنم نہیں جائیں گے بلکہ فروع دین پر عمل نہ کرنے پر بھی عذاب ہو گا چونکہ اس آیت میں نماز نہ پڑھنا عذاب کی وجہ بتائی ہے۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب اہل جہنم نماز اور غریبوں کو کھلانے کی وجہ سے اہل جنت کے درجات دیکھیں گے تو کہہ اٹھیں گے: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور غریب پروری نہیں کرتے تھے۔

اس توجیہ سے اس بات کا جواب بھی آ گیا جو کہتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوٰۃ مکہ میں واجب ہو گئی تھی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الحاقۃ آیت ۳۴


آیات 43 - 47