آیات 1 - 4
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المزمل

اس سورۃ کا نام پہلی آیت میں مذکور یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکی ہے اور بعثت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ہے بلکہ آیت ۵ اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ’’عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔‘‘ سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ سورۃ بعثت کے تیسرے سال کے بعد نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے اپنی رسالت کا اعلان کرنے کا حکم نازل ہوا تھا۔ اعلان رسالت میں مشرکین کے معبودوں کے خلاف اور ان کے آبائی مذہب کے بطلان کا اعلان کرنا تھا جو ایک نہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ایک نہایت روحانی طاقت و قوت کی ضرورت تھی جو عبادت سے حاصل ہو سکتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے کپڑوں میں لپٹنے والے!

قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ رات کو اٹھا کیجیے مگر کم،

نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے،

اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾

۴۔ یا اس پر کچھ بڑھا دیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے ۔

تفسیر آیات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالت تزمل اور رسالت کے فرائض کے درمیان کوئی ربط اور واسطہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم مزمل کے معنی کپڑوں میں لپٹنے والے لیتے ہیں تو اس ربط کاسمجھ میں آنا دشوار ہے، لیکن اگر ہم تزمل کے معنی بار سنگین اٹھانے والے لیتے ہیں تو بظاہر ربط معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ جوہری، ابن اثیر اور بیضاوی نے مزمل کا ایک معنی بوجھ اٹھانے والے سے کیا ہے۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یا محمد کہکر نہیں پکارا جب کہ باقی انبیاء علیہم السلام کو یا ابراہیم یا موسیٰ کہہ کر پکارا ہے۔

۲۔ قُمِ الَّیۡلَ: رات کو اٹھاکیجیے۔ یہ حکم ہے کہ رات کو تہجد کے لیے اٹھا کریں۔ چنانچہ تہجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر واجب ہے، امت پر مستحب ہے۔

۳۔ اِلَّا قَلِیۡلًا: مگر تھوڑا کم۔ یعنی رات اٹھا کریں مگر تھوڑا کم نہ اٹھا کریں، وہ جو تھوڑا کم ہے وہ نصف رات ہو یا نصف سے کم ہو یا نصف سے کچھ زیادہ ہو۔ رات کا اٹھنا واجب ہے، مقدار میں اختیار ہے کہ ان تین حالتوں میں سے کسی ایک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اختیار کرسکتے ہیں۔

موجودہ نامساعد حالات اور آئندہ آنے والے سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رات کو اٹھ کر عبادت کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کومادی وسائل اور اسلحوں سے نہیں بلکہ باطنی طاقت اور روحانی قوت سے لیس کرنا چاہتا ہے۔

۴۔ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حکم ہے۔ یہ تہجد کی نماز سے مربوط ہے یا مطلقاً؟ دو اقوال ہیں: بظاہر تہجد میں ترتیل کا حکم ہے۔ اگرچہ قرآن کو ہمیشہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم سب کے لیے ہے لیکن تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ہو سکتا ہے ترتیل واجب ہو۔

ترتیل قرآن کو اس طرح پڑھنے کو کہتے ہیں کہ حروف اپنے مخارج سے پوری وضاحت کے ساتھ نکلیں اور زیر و زبر کا تلفظ بھی واضح طریقے سے ہو۔ ترتیل کی یہ تعریف کی گئی ہے: تلاوت اس طرح آہستہ ہو کہ سننے والا حروف کا شمار کر سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کے مفاہیم ذہن میں اترتے جاتے ہیں اور کلام الٰہی کا اثر شعور تک پہنچ پاتا ہے۔


آیات 1 - 4