آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الجن

اس سورۃ المبارکہ کا نام سورۃ الجن اس لیے ہے کہ اس میں جنات کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔

یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے۔ آیات کی تعداد بلا اختلاف ۲۸ ہے۔

اس سورۃ میں مذکور جنات، ان جنات کے علاوہ ہیں جن کا ذکر سورۃ احقاف میں ہوا ہے۔ چونکہ سورۃ احقاف میں مذکور جنات کتاب موسیٰ علیہ السلام توریت پر ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی۔۔۔۔ (۴۶ احقاف: ۳۰) سے ظاہر ہے اور اس جگہ جن جنات کا ذکر ہے وہ بظاہر مشرک تھے۔ ان جنات نے اتفاقاً نماز صبح میں قرآن پڑھتے سنا تھا۔

۶جنات کو یہ علم تو تھا کہ وہ پہلے کی طرح عالم بالا میں نہیں جا سکتے۔ انہیں اس کا راز معلوم نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن سن کر ان پر یہ راز منکشف ہوا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ کہدیجئے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے

یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ جو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم کسی کو ہرگز اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ یہ واقعہ بعض کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طائف سے واپسی پر نخلہ کے مقام پر پیش آیا اور بعض کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بازار عکاظ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں جنات کا ایک گروہ گزر رہا تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا تو ایمان لے آئے۔

جن ایک پوشیدہ مخلوق ہے جسے انسانی حواس درک نہیں کر سکتے۔ بعض محسوس پرست لوگ جنات کو انسانی اوہام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ان کے وجود کے منکر ہیں۔

بعض دیگر جو دینی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان محسوس پرستوں سے متاثر ہیں، ان تصریحات کی تاویل کرتے ہیں جن سے جنات کا ایک مستقل موجود ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ان کی تاویل یہ ہے کہ شیطان و ابلیس سے مراد انسان میں موجود منفی طاقت اور خواہشات ہیں جب کہ یہ باتیں بذات خود اوہام کے علاوہ کسی دلیل و سند پر مبنی نہیں ہیں۔

قرآنی تصریحات پر مشتمل جنات کے بارے میں جناب علامہ سید علی اکبر قرشی نے اپنی تفسیر میں ایک جامع بیان تحریر فرمایا ہے جو درج ذیل ہے:

شہید مطہریؒ نے فرمایا ہے کہ جن ’’باشعور انرجی‘‘ ہے جو ایک بہترین تعبیر ہے۔ جوشخص بھی وجود جن کا انکار کرے گا وہ اسلامی مسلمات کا انکار کرتا ہے۔

i۔ جن قرآن کی نظر میں ایک باشعور و ارادہ موجود ہے جو اپنی طبیعیتی تقاضوں کے مطابق انسان کے حواس سے پوشیدہ ہے لیکن وہ انسان کی طرح مکلف ہے۔ آخرت میں اٹھایا جائے گا۔ ان میں فرماں بردار اور گنہگار ہوتے ہیں۔

ii۔ جن و انس روئے زمین کی قابل توجہ موجودات میں سے ہیں۔ یہ مکلف اور مورد توجہ خدا ہیں۔ سورہ الرحمن میں تیس مرتبہ سے زیادہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (۵۵ رحمن: ۱۳) کے ساتھ جن و انس سے خطاب فرمایا ہے۔ انہیں آخرت کی نعمتیں اور عذاب یاد دلایا ہے۔ ایک بار فرمایا: سَنَفۡرُغُ لَکُمۡ اَیُّہَ الثَّقَلٰنِ۔۔۔۔ (۵۵ رحمن: ۳۱) یعنی دو قابل توجہ موجودات۔

iii۔ جن آتشی مخلوق ہے جیساکہ انسان خاکی مخلوق ہے:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ (۵ا حجر: ۲۷۔۲۶)

بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔ اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔

iv۔ جن انسان کی طرح مکلف ہیں:

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (۵۱ ذاریات: ۵۶)

اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

یا

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۳۰)

اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے اور آج کے دن کے وقوع کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے تھے؟

v۔ جنوں میں سے گنہگار اور کفار، انسانوں کی طرح اہل جہنم ہوں گے۔

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۷۹)

اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے

vi۔ جنات بھی انسانوں کی طرح موت کا شکار ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کی جگہ لیتے ہیں:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ۔۔۔۔ (۴۶ احقاف: ۱۸)

یہ وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔

vii۔ جن ہمیں دیکھ لیتے ہیں لیکن ہم جن کو نہیں دیکھ پاتے۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۲۷)

اے اولاد آدم! شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے، بے شک شیطان اور اس کے رفقائے کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے۔

viii۔ جن انسانوں کی طرح کام کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ سلیمان علیہ السلام کے لیے کام کرتے تھے۔

وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ۔۔۔۔ (۳۴ سبا: ۱۲)

اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے۔

نیز فرمایا:

یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ۔۔۔۔ (۳۴ سبا: ۱۳)

سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں۔

اصول کافی جلد اول صفحہ ۳۹۳ پر ایک باب بہ عنوان ’’جنات اماموں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے دینی مسائل پوچھتے ہیں‘‘ موجود ہے جس میں جنوں کے کام کرنے کے بارے میں سات احادیث مذکور ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ انسانی شکل میں آ کر کام کرتے ہیں۔ چنانچہ کافی میں یہ بات بھی ہے کہ ایک جن نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا خط سدیر صیرفی کو پہنچایا تھا۔

ix۔ جن کے لیے فرشتوں کی طرح انسانی شکل یا کسی اور شکل میں آنا ممکن ہے۔ فرشتے جوانوں کی شکل میں حضرت لوط اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے ہاں آئے تھے اور جب تک فرشتوں نے خود نہیں بتایا وہ انہیں انسان سمجھتے رہے۔

x۔ سورہ الرحمن آیت ۷۴:

لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿۷۴﴾

جنہیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جن نے۔

سے معلوم ہوتا ہے جنات کی نسل بھی ازدواجی مقاربت سے پھیلتی ہے۔

xi۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ احقاف آیات ۲۹۔ ۳۱ اور سورہ جن سے معلوم ہوتا ہے۔

xii۔ اور آیہ وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ۔۔۔۔ (آیت۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں میں مرد و زن ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفسیر احسن الحدیث ذیل آیت

بہرحال جن ایک شعور کی مالک انرجی ہے جیسے انسان باشعور خاکی ہے۔ جن کے بارے میں اوہام پرستوں نے جو خرافات ذہنوں میں گھڑی ہیں وہ بھی صحیح نہیں ہیں۔

۱۔ قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ: ’’کہدیجے! میری طرف وحی آئی ہے‘‘ سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود جنات کو نہیں دیکھا بلکہ وحی کے ذریعہ معلوم ہوا ہے۔

۲۔ قُرۡاٰنًا عَجَبًا: ایک قابل تعجب اور حیرت انگیز قرآن کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات کلام کی فصاحت و بلاغت اور اسلوب کلام کے نادر ہونے کا بھی بالکل انسانوں کی طرح ادراک کرتے ہیں۔

۳۔ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ: کلام الٰہی کی تاثیر ہے کہ جنوں کو راہ راست کی شناخت ہو گئی اور قرآن سننے سے جنات کے موقف میں بنیادی تبدیلیاں آئیں جن کا ذکر اگلی آیات میں ہے۔

۴۔ فَاٰمَنَّا بِہٖ: سب سے پہلی بنیادی تبدیلی ایمان باللہ اور نفی شرک ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات مذہب رکھتے ہیں اور عقیدہ شرک پر قائم تھے۔


آیات 1 - 2