آیت 205
 

وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ﴿۲۰۵﴾

۲۰۵۔(اے رسول) اپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

تشریح کلمات

تَضَرُّعًا:

( ض ر ع ) التضرع عجز و تذلل کا اظہار کرنا۔

بِالۡغُدُوِّ:

( غ د و ) الغداوۃ ، دن کا ابتدائی حصہ۔

الۡاٰصَالِ :(ا ص ل) اصیل کی جمع۔ عصر و مغرب کا درمیانی وقت۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ: اس آیت میں ذکر کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ذکر قلبی کہ انسان کا دل ہمیشہ یاد خدا میں رہے۔ اپنے خالق سے ہمیشہ اتصال میں رہے۔ ذکر قلبی کے آداب میں بتایا کہ جب دل اللہ کی یاد میں ہو گا تو تضرع و تذلل بھی ہونا چاہیے، جو اللہ کی عظمت کے سامنے ایک طبیعی امر ہے۔ تضرع میں ایک قسم کا شوق پایا جاتا ہے کہ جس کے سامنے زاری کی جاتی ہے اس کے ساتھ اشتیاق بھی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ خوف و بیم کا شائبہ بھی ہوناچاہیے کہ اس کی عظمت و جلالت کا لازمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ انسان اللہ کو دل میں یاد کرے تو خوف و رجا، امیدو بیم کے ساتھ ہونا چاہیے۔

۲۔ وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ: دوسرا ذکر لسانی و قولی ہے۔ اس کے آداب میں بتا یا گیا ہے کہ ہلکی آواز میں یہ ذکر ہونا ہی آداب بندگی ہے۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تمہارے نہایت قریب ہے۔ اس کو آہستہ آواز میں پکارو۔

صبح و شام کے وقت کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے بیان کیا ہو کہ ان اوقات میں آفاقی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ لیل و نہار اور صبح و شام کی تبدیلیوں میں قدرت کے مظاہر ہوتے ہیں۔ ان اوقات میں ذکر خدا اپنا منفرد اثر رکھتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ذکر خدا کے لیے دل اور زبان میں اتفاق اور صبح وشام میں اتصال ہو تو غافل شمار نہیں ہوتا۔


آیت 205