آیت 28
 

وَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً قَالُوۡا وَجَدۡنَا عَلَیۡہَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، کہدیجئے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟

تفسیر آیات

مذہب کے نام پر انجام پانے والی ہر بدعت کے لیے بدعتی لوگ عموماً دو توجیہ پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ نسلوں پر محیط ہمارے رسم و رواج، تہذیب و تمدن اور کلچر ہے۔ دوسری یہ کہ خود خدا نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جیساکہ اس آیت کی شان نزول میں وارد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب، جاہلیت میں کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے اور کہتے تھے کہ ہم اس طرح طواف کرتے ہیں جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں۔ ان کپڑوں میں طواف نہیں کرتے جن میں گناہ کیا ہے۔ یہ رسم فتح مکہ تک جاری رہی۔ فتح مکہ کے بعد حضورؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو آیات برائت کے ساتھ مکہ روانہ فرمایا اور اس رسم بد کا خاتمہ کر دیا۔

اَمَرَنَا بِہَا: وہ اس رسم بد کی نسبت اللہ کی طرف دیتے تھے، جو ایک بہتان ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ: اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ اللہ فعل قبیح کا حکم نہیں دیتا۔ پاکیزہ ہے وہ ذات ایسی باتوں سے۔

اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ: اللہ پر افترا باندھنا شرک کی طرح سنگین جرم ہے۔

اس آیت کا شان نزول مذکورہ موضوع ہو سکتا ہے۔ تاہم آیت کی تعبیر میں عمومیت موجود ہے، جس میں ہر قسم کی بے حیائی شامل ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہر بدکار اور بے حیائی کا ارتکاب کرنے والا اپنے لیے کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر لیتا ہے۔


آیت 28