آیات 21 - 24
 

فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ پس وہ ایک دل پسند زندگی میں ہو گا،

فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ بلند و بالا جنت میں،

قُطُوۡفُہَا دَانِیَۃٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ جس کے میوے قریب (دسترس میں) ہوں گے۔

کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا ہَنِیۡٓـئًۢا بِمَاۤ اَسۡلَفۡتُمۡ فِی الۡاَیَّامِ الۡخَالِیَۃِ﴿۲۴﴾

۲۴۔ خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو ان اعمال کے صلے میں جنہیں تم گزشتہ زمانے میں بجا لائے۔

تشریح کلمات

قطوف:

( ق ط ف ) القطف کے معنی پھل چننا کے ہیں۔ -قطف= درخت سے توڑے ہوئے پھل کو کہتے ہیں۔ قطوف اس کی جمع ہے۔

ہَنِیۡٓـئًۢا:

( ھ ن ء ) الھنی ہر وہ چیز جو بغیر مشقت کے حاصل ہو جائے اور نتائج کے اعتبار سے بھی خوش کن ہو۔ اصل میں یہ لفظ طعام کے متعلق استعمال ہوتا ہے یعنی طعام کے خوشگوار ہونے کے لیے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ: وہ اپنی دل پسند زندگی میں ہو گا۔

حدیث میں آیا ہے: وہ زندہ رہیں گے اور کبھی انہیں موت نہیں آئے گی۔ صحت مند رہیں گے کبھی بھی بیماری لاحق نہ ہو گی، ناز و نعمت میں رہیں گے۔ کبھی بھی تنگی نہیں ہو گی، جوان رہیں گے۔ کبھی بھی بڑھاپا نہیں آئے گا۔

وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ۔۔۔۔ (۴۳ زخرف: ۷۱)

اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کرے اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں ۔

۲۔ فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ: وہ جنت ہر اعتبار سے بلند و بالا ہو گی اور قدر و منزلت میں بھی بلند و بالا ہو گی۔ نعمتوں کی لذت بھی بلند و بالا ہو گی۔ کسی تصور کرنے والے کے تصورات سے بھی بلند و بالا ہوں گی۔

۳۔ قُطُوۡفُہَا دَانِیَۃٌ: پھل کھانے کی جب خواہش کریں گے تو میوے قریب دسترس میں ہوں گے۔ واضح رہے جنت میں اہل جنت کا ارادہ نافذ ہو گا۔ جونہی پھل کھانے کا ارادہ کیا، وہ دسترس میں ہو گا۔

۴۔ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا: کھانے پینے کی تمام لذتوں سے بہرہ مند ہو جاؤ ہَنِیۡٓـئًۢا خوشگواری کے ساتھ۔ دنیا کے کھانے پینے کی چیزوں میں ہمیشہ خوشگواری نہیں ہوتی۔ کبھی بدہضمی، کبھی ضرر، کبھی مزاج کے موافق نہیں ہوتیں لیکن جنت میں ایسی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔

۵۔ بِمَاۤ اَسۡلَفۡتُمۡ: یہ ساری نعمتیں ان اعمال صالحہ کے ثمرات ہیں جو دنیا میں تم لوگوں نے انجام دیے ہیں۔ الۡاَیَّامِ الۡخَالِیَۃِ گزشتہ ایام یعنی دنیا۔


آیات 21 - 24