آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الطلاق

اس سورۃ مبارکہ کا نام الطلاق اس لیے مقرر ہوا کہ اس میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اسی لیے اسے چھوٹی سورۃ النسآء بھی کہتے ہیں۔

یہ سورہ مدنی ہے۔ آیات کی تعداد قرائت کوفی کے مطابق بارہ ہے۔

اس سورہ کی ابتدائی سات آیات طلاق کے بارے میں ہیں اور طلاق کے لیے یہ حکم صاف لفظوں میں بیان فرمایا کہ طلاق اس وقت دو جہاں سے عدت شروع ہو سکے۔ یعنی حالت حیض میں عدت شروع نہیں ہو سکتی، طلاق بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے تفصیل آیت کی تفسیر میں مذکور ہے۔

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمۡ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا﴿۱﴾

۱۔ اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، تم انہیں (عدت کے دنوں میں) ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ عورتیں خود نکل جائیں مگر یہ کہ وہ کسی نمایاں برائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو اس نے اپنے ہی نفس پر ظلم کیا، تجھے کیا معلوم اس کے بعد شاید اللہ کوئی صورت پیدا کر دے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعنوان حاکم و نفاذ کنندۂ احکام اس حکم کے مخاطب ٹھہرے ہیں۔

۲۔ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ: جب طلاق دینے لگو تو عدت کے لیے طلاق دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے زمانے میں طلاق دو کہ عدت شروع ہو سکے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۲۸ میں فرمایا:

وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ۔۔۔۔

اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں۔

یعنی عدت رکھیں۔ لِعِدَّتِہِنَّ کا لام وقت بتانے کے لیے ہے۔ چنانچہ لام ، زمانہ بتانے والے کسی لفظ پر داخل ہو تو وقت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

اس طرح اس آیت سے تین احکام مترشح ہوتے ہیں:

اول: حالت حیض میں طلاق صحیح نہیں ہے چونکہ اس حیض سے اس کی عدت شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہے۔ تفصیل آگے آئے گی۔

دوم: اس طہر میں بھی طلاق صحیح نہیں ہے جس میں شوہر نے اس سے مباشرت کی ہے کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ اس مباشرت سے حمل ٹھہرا ہے یا نہیں۔ اس وجہ سے عدت کی ابتدا نہیں ہو سکتی۔

سوم: ایک ہی مجلس میں تین طلاقتیں مؤثر نہیں ہیں۔ صرف ایک طلاق مؤثر ہو سکتی ہے کیونکہ عدت صرف ایک طلاق کی ہو سکتی ہے۔ دوسری اور تیسری کی عدت نہیں ہو سکتی۔ تین طلاقوں کی شرعی حیثیت کی بارے میں ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۳۰۔

حالت حیض میں طلاق غیر مؤثر ہونے پر آیت کے ساتھ سنت رسولؐ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت عمر کے بیٹے عبد اللہ نے اپنی زوجہ کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر نے رسول اللہؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:

لیراجعھا ثم یمسکھا حتی تطھر ثم تحیض ثم تطھر ثم ان شاء طلقھا قبل ان یجامعھا۔ ( تفسیر طبری، صحیح بخاری و مسلم، روح المعانی ذیل آیہ)

اسے چاہیے کہ وہ رجوع کرے اور اپنی زوجیت میں رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے اور اس سے بھی پاک ہو جائے پھر اگر وہ چاہے تو مباشرت سے پہلے طلاق دے دے۔

واضح رہے اس حدیث میں لیراجعھا سے مراد طلاق مؤثر ہونے کے بعد کا رجوع نہیں ہے بلکہ یہاں رجوع سے مراد واپس بلانا ہے۔ ورنہ اگر حالت حیض کی طلاق مؤثر ہوتی تو رجوع کر کے دوبارہ طلاق دینے سے حالت حیض کی حرمت کی تلافی نہیں ہوتی بلکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا: دوبارہ حیض سے پاک ہونے کے بعد مباشرت سے پہلے طلاق دینا چاہے تو دے دو، بتاتا ہے کہ طلاق اس طرح مؤثر ہوتی ہے۔

تعجب ہے اس روایت کو قانون طلاق کا اہم ترین مأخذ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے مضمون پر عمل نہیں کیا جاتا۔

فقہ حنفی، مالکی اور حنبلی کے مطابق حالت حیض اور ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا حرام اور معصیت ہے اور موثر بھی ہے۔

جب کہ ان فقہوں میں معصیت کا نکاح درست نہیں ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ جب معصیت کی طلاق کو موثر قرار دیا تو اس معصیت کے نتیجے میں دوسرے شوہر کا نکاح بھی معصیت ہے تو اس طلاق کے بعد جب دوسرے شوہر سے نکاح کرے گی، یہ نکاح بھی معصیت کا نکاح ہے چونکہ یہ نکاح ایک طلاق معصیت کا نتیجہ ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے لِعِدَّتِہِنَّ فرما کر طلاق کے وقت کا تعین کیا ہے۔ اس معینہ وقت سے پہلے طلاق دینا ایسے ہے جیسے وقت ظہر سے پہلے ظہر کی نماز پڑھی جائے۔

۳۔ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ: اور عدت کا شمار رکھو کہ کب شروع ہوئی ہے اور کب ختم ہو گی۔ چونکہ عدت کے دنوں پر چند ایک احکام مترتب ہوتے ہیں۔

i۔ عدت کے دنوں میں عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی۔ شمار صحیح نہ ہونے کی صورت میں امکان ہے کہ عدت کے دوران نکاح ہو جائے جس سے نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔

ii۔ طلاق یافتہ عورت کو عدت کے دنوں کے اخراجات اور رہائش، طلاق دینے والے سابقہ شوہر سے لینے کا حق حاصل ہے۔

iii۔ طلاق رجعی ہونے کی صورت میں عدت کے دنوں میں شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر شمار صحیح نہ ہو اور رجوع کرے تو ممکن ہے عدت گزرنے کے بعد رجوع کیا ہو، اس سے بھی نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔ اس مقام پر وَ اتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمۡ سے عدت کی اہمیت کا علم ہوتا ہے کہ اس میں تقویٰ اور خوف خدا کا اہم دخل ہے۔

۴۔ عدت کے دوران فوت ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کے وارث بن جاتے ہیں۔

۴۔ لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ: ان مطلقہ عورتوں کو عدت کے دنوں میں ان کے گھروں سے نہ نکالو۔ عدت کے دنوں میں ابھی وہ پوری طرح زوجیت کے تحفظ سے نہیں نکلی ہیں۔ اس لیے نان و نفقہ اور سکونت دینا شوہروں کے ذمے ہے۔ اس کے علاوہ طلاق کے بعد عدت کے دنوں میں ایک گھر میں رہنے سے صلح و مفاہمت کا امکان زیادہ رہتا ہے۔

۵۔ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ: مگر یہ کہ عورت بد زبان یا بدکار ہو تو اس وقت اس کا اخراج جائز ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے: فاحشۃ سے مراد یہ ہے کہ عورت شوہر کے خاندان والوں کو اذیت یا گالی دے۔

۶۔ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ: یہ بیان کرو، یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ حدیں ہیں۔ یعنی طلاق کے معین کردہ وقت کی پابندی کرنا، عدت کا شمار درست رکھنا، عدت کے دنوں کے احکام پر عمل کرنا۔ ان حدوں کی خلاف ورزی سے نکاح کے احکام اور نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔ مثلاً حالت حیض کی طلاق فی الواقع عند اللہ مؤثر نہیں ہے۔ اسے مؤثر سمجھ کر دوسرے شوہر سے نکاح کر لے تو یہ نکاح فی الواقع درست نہیں ہے۔ یہ عورت ابھی سابقہ شوہر کی بیوی ہے، اس سے ہونے والی نسل، شبہ کی ہو جاتی ہے۔

اگر کوئی یہ کہے: آپ حیض کے دنوں کی طلاق کو مثلاً غیر مؤثر سمجھتے ہیں۔ اگر فی الواقع مؤثر ہو تو وہی بات آپ پر بھی آ جاتی ہے۔ ہم کہیں گے ہم معصیت کو مؤثر نہیں سمجھتے جب کہ دوسرے موقف میں معصیت کو مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

۷۔ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ: نسلوں کے اختلاط سے بڑھ کر ظلم کیا ہو سکتا ہے۔

۸۔ لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا: تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی صورت پیدا کر دے۔ یعنی طلاق ہونے کے باوجود رجوع کے ذریعے یا شوہر اور بیوی کی رائے میں تبدیلی کے ذریعے یہ رشتۂ ازدواج دوبارہ بحال ہو جائے۔


آیت 1