آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ التغابن

سورۃ کا نام آیت نمبر۹ میں وارد ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ سے ماخوذ ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی؟ اس میں شدید اختلاف ہے تاہم اس سورۃ کا مدنی ہونا زیادہ قرین واقع ہے۔ بعض کے نزدیک آخری تین آیات مدنی ہیں اور باقی مکی ہیں۔

سورۃ مبارکہ کے مضامین توحید و صفات الٰہی اور انسان کی اچھی شکل و صورت میں تخلیق پر مشتمل ہیں۔ دوسری طرف انسان کو اپنے اعمال پر نظر رکھنے اور غافل نہ رہنے کا حکم ہے۔ تیسرا مضمون معاد سے مربوط ہے۔

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱﴾

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں بادشاہی اسی کی ہے اور ثنا بھی اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ: کل کائنات کی موجودات میں سے ہر ایک اپنے اپنے حواس و شعور کے مطابق اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ اس موضوع پر کئی بار گفتگو ہو گئی۔

۲۔ لَہُ الۡمُلۡکُ: بادشاہی اور حکمرانی اسی کی ہے۔ کائنات کو خلق کرنے کے بعد بھی یہ کائنات اپنی بقا میں اللہ کی محتاج ہے۔ ایک لمحہ کے لیے اگر اللہ اپنی بادشاہی، حکمرانی اور تدبیر کا ہاتھ اٹھا لے تو یہ کائنات صفحہ نیستی میں چلی جائے۔

اس کائنات میں کسی اور کی حکمرانی ہے اور نہ ہی کسی کے ہاتھ تفویض و سپرد ہوئی ہے بلکہ لَہُ الۡمُلۡکُ بادشاہی اللہ ہی کے پاس ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کائنات وجوداً و بقائً اللہ کی محتاج ہے۔

۳۔ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ: جس بات کو حمد و ستائش کہا جاتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اگر اللہ کے علاوہ کوئی شخص قابل ستائش ہے تو اس کا بھی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ سے ہٹ کر کوئی شخص نہ بذات خود، نہ کسی غیر اللہ سے ستائش کسب نہیں کر سکتا۔

۴۔ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ: انسان کسی چیز پر قادر ہوتا ہے وسائل و اسباب کے ذریعے، اللہ تعالیٰ وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ کا صرف ارادہ کافی ہے۔ لہٰذا یہ قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ کسی چیز کا ارادہ کرے اور وہ ارادہ نافذ نہ ہو۔


آیت 1