آیت 2
 

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے، پھر وہ (دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، جو کچھ یہ کرتے ہیں یقینا برا ہے۔

تشریح کلمات

فَصَدُّوۡا:

( ص د د ) الصدّ: رک جانا اور منحرف ہونے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے یَصُدُّوۡنَ عَنۡکَ صُدُوۡدًا۔ (۴ نساء: ۶۱) اور یہی لفظ یعنی صد دوسروں کو روکنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اگر صد، صدودا سے ہے تو رک جانے، منحرف ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور اگر صد،یصد، صداً سے ہے تو دوسروں کو روکنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً: یہ لوگ اگر اپنے اندر کے عقیدۂ کفر کا اظہار کرتے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑتے تو یہ قتل ہوجاتے۔ زبان سے اسلام کے اظہار سے انہیں جان و مال کا تحفظ مل جاتا ہے لہٰذا ان لوگوں کی طرف سے اظہار ایمان کے لیے جو قسمیں کھائی جاتی ہیں وہ ایک چال اور ڈھال ہے۔

۲۔ فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر راہ خدا سے ہٹ گئے۔ وہ راہ خدا جو خود ان کے مفاد میں تھی جس سے انحراف کر کے ان لوگوں نے اپنے ساتھ برا کیا۔


آیت 2