آیت 121
 

وَ لَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمۡ یُذۡکَرِ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۲۱﴾٪

۱۲۱۔ اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ سنگین گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کو پڑھاتے ہیں کہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک بن جاؤ گے۔

تفسیر آیات

جانور پر اللہ کا نام نہ لینے کی پانچ صورتیں ہیں:

i۔ ذبح کرنے والا مسلمان ہو لیکن اللہ کا نام لینا بھول جائے۔

ii۔ ذبح کرنے والا مسلم ہے، جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیتا۔

iii۔ ذبح کرنے والا غیر مسلم ہے اور اللہ کا نام نہیں لیتا۔

iv۔ ذبح کرنے والاغیر مسلم ہے اور اللہ کا نام نہیں لیتا بلکہ غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہے۔

v۔ ذبح سرے سے ہوتا ہی نہیں، جانور مردار ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا تمام صورتوں میں پہلی صورت میں ذبیحہ حلال ہے۔ باقی تمام صورتوں میں ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے۔

۱۔ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ: مشرکین مسلمانوں سے کہتے تھے: کیا جس جانور کو تم مارتے ہو، وہ حلال ہے اور جس جانور (مردار) کو اللہ مارتا ہے، وہ حرام ہے؟

۲۔ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ: اگر کسی جانور پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اسے تم نے حلال سمجھا تو ان خود ساختہ خداؤں کا اعتراف بن جاتا ہے اور تم بھی مشرک بن جاتے ہو۔

اس جملے سے معلوم ہوا کہ یہاں ذبیحہ کھانے، نہ کھانے کا مسئلہ فروعی نہیں ہے بلکہ یہ اصول دین، توحید سے مربوط ہے۔ اس لیے دلائل توحید کے ضمن میں اس کا ذکر آیا۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے والے شیاطین ہوتے ہیں۔

۲۔ ایسے شبہات پیدا کرنے والوں کی اطاعت بھی شرک ہے۔


آیت 121