آیات 41 - 42
 

وَ اسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اور کان لگا کر سنو! جس دن منادی قریب سے پکارے گا،

یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اس دن لوگ اس چیخ کو حقیقتاً سن لیں گے، وہی (قبروں سے) نکل پڑنے کا دن ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اسۡتَمِعۡ: کان لگا کر سن لیں۔ خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے، بتانا سب کو مقصود ہے۔ یہاں’’ سنو ‘‘ کا مطلب سننے کے لیے آمادہ رہو۔ کس چیز کے سننے کے لیے؟

۲۔ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ: منادی کی ندا سننے کے لیے آمادہ رہو مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ یہ ندا ایسی ہو گی جو بہت قریب سے آئے گی کیونکہ یہ ندا دینے والا دور نہیں، ہر ایک کے پاس موجود ہے۔ خواہ یہ ندا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو یا اسرافیل کے ذریعے۔

۳۔ یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ: اس ندا کو ہر کوئی سنے گا چونکہ یہ ندا کانوں کے پردے سے ٹکرانے کی آواز نہیں ہے کہ کوئی سنے اور کوئی نہ سنے بلکہ یہ ندائے حیات ہے۔ ہر قابل احیاء موجود کے وجود کی گہرائیوں تک اس ندا نے جانا ہے۔

۴۔ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ: چونکہ یہ ندا اس دن سے متعلق ہے جس میں مردے زندہ ہو کر قبروں سے اٹھیں گے۔ آیت کا اشارہ دوسرے صور کی طرف ہے جس سے تمام اموات زندہ ہو جائیں گی۔


آیات 41 - 42