آیت 8
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ سورہ نساء آیت ۱۳۵ میں بھی عدل وانصاف کا ذکر آیا، البتہ وہاں قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ فرمایا، اور یہاں قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ فرمایا۔ فرق ان دو آیتوں کے سیاق کلام میں یہ ہے کہ وہاں نفسانی اور ذاتی ترجیحات عدل و انصاف کے لیے رکاوٹ بن سکتے تھے، اس لیے فرمایا: عدل کے قیام میں بھرپورکردار ادا کرو اور گواہی دیتے ہوئے اللہ کو سامنے رکھو۔

۲۔ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ: اور یہاں سیاق کلام یہ ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی حائل بن سکتی ہے کہ انسان مشتعل ہو کر ان کے ساتھ عدل و انصاف نہ کرے۔ اس لیے یہاں فرمایا: اللہ ہی کے لیے بھرپور قیام کرنے والے بن جاؤ، یعنی تعمیل احکام میں تمہارا کردار اللہ کی خوشنودی پر مبنی ہونا چاہیے۔ کسی گروہ کی دشمنی اس راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور گواہی دیتے ہوئے عدل و انصاف کو سامنے رکھو۔

۳۔ عۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی: انصاف، انسانی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام عدل و انصاف کو انسانی بنیادی حقوق میں سے قرار دیتا ہے۔ اس میں مذہب، نثراد و دیگر امور کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم ملا کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ کیونکہ جہاں وہ دشمن ہے، وہاں وہ انسان ہے اور وہ انسان پہلے ہے اور دشمن بعد میں۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام ظلم و ناانصافی سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاِنَّہُمْ صِنْفَانِ: اِمَّا اَخٌ لَکَ فِی الدِّیْنِ وَ اِمَّا نَظِیرٌ لَکَ فِی الْخَلْقِ ۔ (نہج البلاغہ خ ۵۳۔ مالک اشترؓ کے نام عہدنامہ)

لوگوں کی دو قسمیں ہیں: یا تو تمہارا برادر دینی ہے یا تجھ جیسی مخلوق ۔

جب بیت المال کی تقسیم میں سب کے ساتھ مساویانہ سلوک اختیار فرمایا تو لوگوں کے اعتراض پر آپ ؑنے فرمایا:

لَو کَانَ الْمَالُ لِی لَسَوَّیْتُ بَیْنَہُمْ فَکَیْفَ وَ اِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللّٰہِ ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۶)

اگر یہ مال میرا ذاتی ہوتا تو بھی میں ان میں مساویانہ تقسیم کر دیتا۔ اب میں کس طرح مساویانہ تقسیم نہ کروں جب کہ مال اللہ کا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ عدل اور سخاوت میں سے کون بہتر ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:

العَدْلُ یَضَعُ الْاُمُورَ مَوَاضِعَہَا وَ الْجُودُ یُخْرِجُہَا مِنْ جِہَتِہَا وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ وَ الْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ فَالْعَدْلُ اَشْرَفُہُمَا وَ اَفْضَلُہُمَا ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۴۳۷)

عدل ہر چیز کو اس کے موقع محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ہر چیز کو اس کی حد سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل ایک اجتماعی نظام سے عبارت ہے جب کہ سخاوت ایک خصوصی مسئلہ ہے۔ لہذا عدل سخاوت سے اشرف و افضل ہے۔

رسالتمآب (ص) سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

بالعدل قامت السمٰوات و الارض ۔ (عوالی اللئالی ۴: ۱۰۲)

زمین و آسمان عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہیں۔


آیت 8