آیت 5
 

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ وَ لَا مُتَّخِذِیۡۤ اَخۡدَانٍ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۫ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ٪﴿۵﴾

۵۔ آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاکدامن مومنہ عورتیں نیز جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان کی پاکدامن عورتیں بھی (حلال کی گئی ہیں) بشرطیکہ ان کا مہر دے دو اور ان کی عفت کے محافظ بنو، چوری چھپے آشنائیاں یا بدکاری نہ کرو اور جو کوئی ایمان سے منکر ہو، یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

تشریح کلمات

طَعَامُ:

( ط ع م )ہر وہ چیز جو بطور غذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں اور کبھی طعام کا لفظ خاص گیہوں پر بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐنے صدقہ فطر میں ایک صاع طعام یا ایک صاع جو دینے کا حکم دیا ہے۔ جوہری نے صحاح میں کہا ہے: و ربما خصّ باطعام البُرّ ۔ کبھی طعام سے صرف گیہوں مراد لیا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

اَلۡیَوۡمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ: سابقہ آیت میں اس بات کا ذکر ہوا کہ کلیہ یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے جب تک حرام ہونے پر دلیل نہ آئے۔

اس آیۂ شریفہ میں دو مباحث قابل توجہ ہیں:

۱۔ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کا طعام حلال ہے سے مراد کیا مطلق طعام ہے، جس میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے؟

یہاں دو مؤقف ہیں:

i۔ اکثر اہل سنت کا مؤقف ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔

ii۔ فقہ جعفریہ کا مؤقف ہے کہ طعام سے مراد ذبیحہ کے علاوہ باقی طعام ہیں۔ پھر باقی طعام میں فقہ جعفریہ کے فقہاء میں دو نظریے ہیں: ایک یہ کہ اہل کتاب نجس ہیں، لہٰذا مرطوب کھانا جس کو اہل کتاب نے مس کیا ہے نجس ہے۔ دوسرا نظریہ چند ایک فقہائے امامیہ کا ہے کہ اہل کتاب پاک ہیں، لہٰذا ذبیحہ کے علاوہ تمام کھانا حلال ہے، جب نجاست لگنے کا یقین نہ ہو۔

فقہ جعفریہ کے مؤقف کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ انعام آیت ۱۲۱ میں فرمایا : وَ لَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمۡ یُذۡکَرِ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسۡقٌ ۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس کو مت کھاؤ، ایسا کرنا گناہ ہے۔ اس کے علاوہ سورہ ہائے بقرہ، مائدہ اور نحل میں ان ذبیحوں کو گناہ، فسق اور نجس قرار دیا ہے جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔

یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ مسیحی اگر دین مسیحیت پر کاربند ہے تو وہ اپنے ذبیحہ پر ’’ تثلیث مقدس ‘‘ کا نام لیتا ہے۔ اگر وہ دین مسیحی کا پابند نہیں ہے تو کوئی بھی نام نہیں لیتا۔ دونوں صورتوں میں حرام ہے نیز یہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب اہل کتاب کسی جانور کو ذبح کرے اور اگر سرے سے ذبح ہی نہ کرے، جیسا کہ آج کل ہے تو حلال ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

یہاں اس سلسلے میں چند ایک سوال اٹھائے جاتے ہیں:

i۔ سوال: قرآن کی تعبیر یہ ہے کہ اہل کتاب کا طعام تمہارے لیے حلال ہے اور طعام ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کھائی جائے، جس میں ذبیحہ بھی شامل ہے۔

جواب: اولاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد جگہوں پر ان ذبیحوں کو جن پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا، رجس اور ناپاک قرر دیا ہے اور اس آیت میں پاکیزہ چیزوں کو حلال کیا ہے، لہٰذا اہل کتاب کا ذبیحہ حلال چیزوں سے پہلے ہی خارج ہے۔ ثانیاً احادیث نے اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ طعام سے مراد ذبیحہ کے علاوہ ہے۔

ii۔سوال: اگر طعام سے مراد ذبیحہ کے علاوہ گندم، جو اور پھل وغیرہ ہیں تو یہ چیزیں اہل کتاب کی ہوں یا مشرکین کی، سب حلال ہیں تو اس کا کیا مفہوم بنے گا کہ اہل کتاب کے دانے اور پھل تمہارے لیے حلال ہیں۔

جواب: قرآن مجید نے اہل کتاب سے دوستی رکھنے، ان پر بھروسا کرنے سے سخت منع فرمایا تو اس کا یہ مطلب نکالا جا سکتا تھا کہ ان سے ہر قسم کا میل جول رکھنا جائز ہے نہیں؟ اس اشتباہ کے ازالہ کے لیے فرمایا: ان کا طعام تمہارے لیے حلال ہے۔ اس حدتک تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ یعنی اب تم داخلی طور پر مستحکم ہوگئے ہو اور مسلمان ایک مضبوط قوم بن چکے ہیں۔ لہٰذا آج کے بعد اہل کتاب سے کھانے پینے تک کے تعلقات رکھ سکتے ہو۔

iii۔سوال: ممکن ہے اس آیت سے وہ آیات منسوخ ہو جائیں جن میں ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لینے کی صورت میں حرام قرار دیا تھا۔

جواب: اس سے پہلے اسی سورہ میں فرمایا ہے: وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۔ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، حرام ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سورۂ مائدہ کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا۔

۲۔ وَ الۡمُحۡصَنٰتُ: دوسرا مسئلہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا ہے کہ اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ جس طرح مومن پاکدامن عورتیں تم پر حلال ہیں، اہل کتاب کی پاکدامن عورتیں بھی تم پر حلال ہیں حالانکہ اس سے قبل نازل ہونے والی سورتوں میں کچھ اس طرح حکم ہوا تھا:

وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ ۔۔ (۶۰ ممتحنہ: ۱۰)

اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔۔۔۔

وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۲۱)

اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔۔۔۔

اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ دو آیات غیر اہل کتاب مشرک اور کافر عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور اگر الۡکَوَافِرِ کو مشرک عورتوں سے مخصوص نہ سمجھا جائے تو زیر بحث آیت ان دو آیتوں کے لیے ناسخ بن جاتی ہے۔

بہرحال ان آیات میں صریحاً ملتا ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔

اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے جواز کے لیے چار باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:

i۔ ان کا حق مہر ادا کر دیا جائے: اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ۔۔۔۔

ii۔ ان کی عفت کا محافظ بن جائے۔

iii۔ بدکاری کا ارتکاب نہ کرے۔

iv۔ چوری چھپے آشنائیاں بھی نہ رکھے۔

اس سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنے میں موجود خطرات کی طرف لطیف اشارے ملتے ہیں، ان کو خاطر میں رکھنا ضروری ہے۔

فقہائے امامیہ اس آیت کی تفسیر میں وارد احادیث کی روشنی میں اہل کتاب عورتوں سے صرف متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔

۳۔ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالۡاِیۡمَانِ : جو ایمان کو چھپائے تو اس کا عمل حبط ہو گا۔ ایمان پر کفر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حق کو پہچانتا ہے لیکن وہ اسے چھپا کر کفر کا اظہار کرتا ہے جیسے فرمایا:

وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ۔۔ (۲۷ نمل: ۱۴)

وہ ان نشانیوں کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں کو یقین آگیا تھا

احادیث

الکافی اور التہذیب میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے اہل کتاب کا طعام حلال ہونے کے بارے میں فرمایا: الحبوب ۔ طعام سے مراد دانے ہیں۔ (الکافی ۶: ۲۴۰)

تہذیب میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لَا بَأْسَ اَنْ یَتَمَتَّعَ الرَّجُلُ بِالْیَہُودِیَّۃِ وَ النَّصْرَانِیَّۃِ وَ عِنْدَہُ حُرَّۃُ ۔ (التہذیب ۷: ۲۵۶)

آزاد عورتیں موجود ہونے کی صورت میں بھی انسان یہودی و نصرانی عورت کے ساتھ متعہ کرسکتا ہے۔


آیت 5