آیت 6
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ ؕ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا (ہمبستری کی) ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو پھر اس سے تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو، اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک اور تم پر اپنی نعمت مکمل کرنا چاہتا ہے شاید تم شکر کرو۔

تشریح کلمات

الۡکَعۡبَیۡنِ:

( ک ع ب ) کعب اس ہڈی کو کہتے ہیں جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ پر ہوتی ہے اور پاؤں کی پشت کی ابھری ہوئی ہڈی کو بھی کعب کہتے ہیں۔

جنب:

( ج ن ب ) دوری کے معنوں میں آتا ہے۔ جنابت اس لیے کہتے ہیں کہ یہ شرعاً نماز سے دور رہنے کا سبب بنتی ہے۔

الۡغَآئِطِ:

( غ و ط ) الغوط نیچی اور مطمئن جگہ کو کہتے ہیں اور لوگ رفع حاجت کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کسی دیکھنے والے سے محفوظ ہوں۔ اسی سے انسانی فضلہ کو غائط کہنے لگے۔

تیمم:

( ا م م ) قصد کے معنوں میں ہے۔

صَعِیۡدًا:

( ص ع د )مٹی کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیۂ شریفہ میں وضو، غسل اور تیمم کا بیان ہے، جو نماز کے لیے ضروری ہیں۔

وضو: اسلام جہاں باطنی پاکیزگی کو اہمیت دیتا ہے، وہاں ظاہری نظافت و جسمانی صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ وضو اورغسل کا واحد مقصد نظافت ظاہری نہیں ہے تاکہ آج کل کے روشن خیال یہ کہیں: وضو اور غسل عرب بدوؤں کے لیے ضروری تھا، آج کا مہذب اور تمدن یافتہ انسان صفائی کے شعور کی اس منزل پر فائز ہے، جہاں وضو اور غسل کی ضرورت باقی نہ رہی، بلکہ وضو، غسل اور تیمم میں روحی طہارت اور معنوی پاکیزگی اصل مقصود ہے۔ اگر وضو اور غسل صرف ظاہری صفائی کا عمل ہوتا تو اس کا ربط ظاہری میل کچیل کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، جب کہ وضو اور غسل کے موجبات و اسباب پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی جسم و روح دونوں کی ایک کیفیت کے ساتھ مربوط ہیں۔ چنانچہ تیمم کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل سے روحانی اور باطنی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس آیہ شریفہ میں وضو کے درج ذیل احکام بیان ہوئے ہیں:

فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ: اپنے چہروں کو دھو لیا کرو۔ چہرے کی حدفقہی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔

ii۔ وَ اَیۡدِیَکُمۡ: اور اپنے ہاتھوں کو دھو لیا کرو۔ ہاتھ کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں تک دھونا ہے۔ کیونکہ کلائی تک کو بھی ہاتھ کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس حد کو بیان فرمایا: اِلَی الۡمَرَافِقِ کہنیوں تک دھونا ہے۔ لہٰذا یہ مغسول کی حدبندی ہے، غَسل کی نہیں۔ یعنی ہاتھ کی حد بیان ہو رہی ہے کہ کہنیوں سے زیادہ دھونا ہے، نہ کم، بلکہ کہنیوں تک دھونا ہے۔ دھونے کی حد بندی نہیں ہو رہی ہے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور کہاں ختم کرنا ہے۔ یعنی یہاں دھونے کے لیے ابتدا اور انتہا کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں ایک تو ہر انسان کا فطری تقاضا ہے کہ ایک خالی الذہن انسان کو اپنا ہاتھ دھونا پڑتا ہے تو وہ کس طرح دھوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ کہنیوں سے نیچے انگلیوں کی طرف آئے گا۔ ثانیاً احادیث نے بتایا کہ دھونے کی ترتیب اوپر سے نیچے کی طرف ہے۔

iii۔ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ: اپنے سروں کا مسح کرو۔ اس سے مراد پورے سر کا نہیں بلکہ ایک حصے کا مسح کرنا ہے۔یہ مطلب لفظ بِرُءُوۡسِکُمۡ میں حرف ’ باء ‘ سے نکلتا ہے۔ یہ ’ب‘ تبعیض کے لیے ہے۔ یہ کون سا بعض حصہ ہونا چاہیے؟ احادیث نے بتایا کہ سر کے سامنے کا حصہ ہونا چاہیے۔

وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔ اس جملہ کی دو قرائتیں ہیں:

i۔ قرائت نصب: اس قرائت کے تحت اَرۡجُلَکُمۡ کے لام کو فتحہ یعنی زَبرَ دے کرپڑھیں گے۔ اس قرائت کو نافع، ابن عامر، کسائی، حفص، یعقوب نے اختیار کیا ہے۔

ii۔ قرائت جر: اس قرائت کے تحت اَرۡجُلَکُمۡ کی لام کو جر یعنی زِیرْ کے ساتھ پڑھیں گے۔ اس قرائت کو ابن کثیر، حمزہ، ابو عمر، اور عاصم نے اختیا ر کیا ہے۔

ان دو قراءتوں کی بنیاد پر یہ اختلاف بھی سامنے آیا ہے کہ پاؤں کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس، انس بن مالک، عکرمہ، ابو علی جبائی، شعبی کا مؤقف یہ ہے کہ پاؤں کا مسح کرنا لازمی ہے۔ یہی امامیہ کا مؤقف ہے۔ عربی قواعد کے مطابق دونوں قرائتوں کی صورت میں مسح ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ رؤس کے لفظ پر عطف کیا جائے تو اَرۡجُلَکُمۡ مجرور ہو گا اور اگر رؤس کے محل پر عطف کیا جائے تو اَرۡجُلَکُمۡ منصوب ہو گا اور عطف بَر محل کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، چونکہ استعمال میں رائج ہے۔ کہتے ہیں: مررت بزید و عمراً ۔ شاعر نے کہا ہے:

معاوی اننا بشر فاسجع

فلسنا بالحبال ولا الحدیداً

یہاں پر لفظ حدید ، الحبال پر عطف ہے اور عطف بَر محل ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اَرۡجُلَکُمۡ کو اَیۡدِیَکُمۡ پر عطف قرار دینا سیاق و ظاہر کلام کے خلاف ہے۔ چونکہ سیاق کلام اس طرح ہے: ’’دھو لیا کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کرو اپنے سروں اور پاؤں کا ٹخنوں تک۔‘‘ اگر سیاق کلام کے تحت پاؤں کو سروں کے حکم میں ملانا ضروری نہیں ہے تو ہاتھوں کو بھی چہروں کے ساتھ ملانا ضروری نہیں رہے گا۔ اس سے نظم کلام درہم برہم ہو جائے گا۔

محمد ابراہیم حلبی نے آیات وضو کے ضمن میں لکھا ہے:

و ارجلکم الی الکعبین فی السبعۃ بالنصب و الجرُ المشہور ان النصب بالعطف علی وجوہکم والجر الجوار و الصحیح ان الارجل معطوفۃ علیٰ الرؤس فی القرئتین و نصبھا علی المحل و جرھا علی اللفظ و ذلک لامتناع العطف علی المنصوب بالفعل بین العاطف والمعطوف علیہ بجملۃ اجنبیۃ والاصل ان یفصل بینھما بمفرد فضلاً عن الجملۃ و لم یُسمع فی الفصیح نحو ضربت زیداً و مررت بعمرا بعطف بکر علی زیداً ۔ ( کبیری شرح منیۃ المصلی ص ۱۵ مطبع محمدی لاہور)

و ارجلکم سات قرائتوں میں نصب اور جر دونوں سے پڑھا گیا ہے اور مشہور یہ ہے کہنصب وجوھکم پر عطف کی وجہ سے ہے اور جر جوار کے لیے ہے اور صحیح یہ ہے کہ ارجل دونوں قرأتوں میں رؤس پر معطوف ہے محلاً منصوب ہے اور لفظاً مجرور ہے کیونکہ منصوب پر عطف منع ہے۔ اس لیے کہ عاطف اور معطوف علیہ کے درمیان ایک اجنبی جملے کا فاصلہ ہے حالانکہ ان دونوں کے درمیان ایک لفظ کا بھی فاصلہ نہ کیا چہ جائیکہ جملے کا فاصلہ کیا جائے۔ فصیح کلام میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ ضربت زیداً و مررت بعمر و بکراً کہ بکراً کا عطف زیداً پر کیا گیا ہو۔

رہا یہ سوال کہ قراءت جَرْ اعراب بالجوار کی وجہ سے ہے، عطف کی وجہ سے نہیں۔ یعنی اَرْجُلِ کو رؤس کے جوار کی وجہ سے جَرْ ملا ہے۔ جیسا کہ امرؤ القیس نے کہا ہے:

کأن ثبیراً فی عرانین و بلہ

کبیر اناس فی بجادٍ مزمّلٍ

اس شعر میں مزمل کو بجاد کے جوار کی وجہ سے جَر ملا، ورنہ یہ کبیر کی صفت ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوتا نیز یہ قول بھی مشہور ہے: جحر ضبٍ خربٍ ۔ اس میں خرب کو ضبٍّ کے جوار کی وجہ سے جر ملا، ورنہ یہ جحرٌ کی صفت ہے، رفع ملنا چاہیے۔

اس کا جواب یہ ہے:

اولاً: بہت سے علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ جَر بالمجاورۃ نہایت کمزور مسئلہ ہے اور جہاں کلام عرب میں کبھی شاذ و نادر استعمال ہوا ہے، اسی پر توقف کیا جاتا ہے، مزید قیاس نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ علامہ حلبی نے لکھا ہے:

و اما الجر علی الجوار فلا یکون فی عطف النسق لان العاطف یمنع المجاورۃ ۔ (کبیری شرح منیۃالمصلی ص ۱۵۔ شرح مائۃ عامل عبد الرسول ص ۱۱)

لیکن جر جوار عطف نسق میں ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ عاطف مجاورت کو مانع ہے۔

نحو کی مشہور کتاب متن متین صفحہ ۱۶۹ طبع لاہور میں تحریر ہے:

و قد یجر للجوار اتفق علیہ الفریقان و علیہ حمل جمع قولہ تعالیٰ : و ارجلکم بالجر و التحقیق علی ما فی المغنی والفیۃ للشیخ السیوطی ان فی النعت قلیل و فی التاکید نادر و فی العطف ممتنع و کذا فی موضع اللبس و لا سیما اذا تبادر خلاف المقصود ۔

کبھی جر جوار کے لیے بھی دی جاتی ہے جس پر دونوں فریق (بصری و کوفی) متفق ہیں اور اسی لیے ایک جماعت نے ارشاد باری تعالیٰ: و ارجلکم کو جر پر حمل کیا ہے مگر تحقیقی بات وہ ہے جس طرح مغنی اور للشیخ سیوطی الفیۃ میں لکھا ہے وہ یہ ہے کہ جرجوار نعت میں کم اور تاکید میں نادر اور عطف میں ممتنع ہے اور اسی طرح مقام اشتباہ میں ممتنع ہے۔ بالخصوص جب ظاہر و متبادر مقصودکے خلاف ہو(تو یقینا جر جوار منع ہے)۔

سیرافی اور ابن جنی نے جر بالمجاورۃ کا انکار کیا ہے۔ ابو اسحاق نحوی کہتے ہیں: قرآن میں جر بالمجاورۃ درست نہیں ہے۔ یہ صرف ضرورت شعری میں جائز ہے اور اکثر نحوی کہتے ہیں: کلام عرب میں جحر ضبٍ خرب میں رفع و جر دونوں منقول ہیں اور رفع افصح ہے۔

ثانیاً: اس پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جر بالمجاورۃ میں حرف عطف نہیں ہوا کرتا۔ (مغنی اللبیب ۲: ۸۹۵۔ التفسیر الکبیر ۱۱: ۱۶۱) یہاں وَ اَرۡجُلَکُمۡ میں واو عطف موجود ہے لہٰذا اس میں جر بالمجاورۃ کا نظریہ یقینا باطل ثابت ہو جاتا ہے۔

ثالثاً: اعراب بالجوار وہاں جائز ہو سکتا ہے جہاں کلام میں اشتباہ پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ جیسے: جحْرُ ضَبٍّ خربٍ میں خَرْب جحْرُ کی صفت ہو سکتی ہے، ضب کی نہیں ہو سکتی اور شعر میں مزمّل کَبِیْرُا کی صفت ہو سکتی ہے، بجادٍ کی نہیں۔ جب کہ آیت میں جر بالمجاروۃ سے کلام میں اشتباہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

امرؤ القیس کے شعر کے بارے میں بعض علماء کا نظریہ ہے کہ مزملٍ جر بالجوار کی وجہ سے مجرور نہیں ہے بلکہ اناسٍ کی صفت ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔

صاحب تفسیر المنار کو اسی وجہ سے کہنا پڑا:

و الظاہر انہ عطف علی الرؤس ای ھو امسحوا بارجلکم الی الکعبین ۔

یعنی ظاہر آیت یہ ہے کہ ارجلکم رؤسکم پر عطف ہے اور معنی یہ بنتے ہیں کہ پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرو۔

اسی سے طحاوی اور ابن حزم کو یہ مؤقف اختیار کرنا پڑا کہ مسح کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ اس سے مسح کا حکم ثابت ہو جاتا ہے۔ البتہ منسوخ ہونے پر قرآنی دلیل لانی پڑتی ہے، چونکہ قرآن کا نسخ قرآن سے ہو سکتا ہے، جو طحاوی اور ابن حزم کے بس میں نہیں ہے اور دیگر بعض نے مسح کا انکار نہیں کیا بلکہ مسح سے دھونا مراد لیا۔ (ابن ابی شیبۃ ۔ المصنف ۱:۲۷)

ابن حزم اپنی کتاب المحلی ۲: ۵۶ میں لکھتے ہیں:

دونوں پاؤں کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ قرآن میں مسح کا حکم نازل ہوا ہے۔ جیسے فرمایا: وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ ۔ ارجلکم کی لام کو آپ زبر دیں یا زیر ، دونوں صورتوں میں یہ رؤس پر عطف ہے یا لفظ پر یا محل پر، اس کے علاوہ نہیں ہو سکتا چونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان نیا جملہ نہیں آ سکتا۔

الإحکام فی أصول الأحکام میں الامام لآمدی ج ۳ ص ۶۸ طبع بیروت میں لکھتے ہیں:

و من ابعد التاویلات ما یقولہ القائلون بوجوب غسل الرجلین فی الوضوء فیقولہ تعالیٰ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ من ان المراد بہ الغسل و ہو فی غایۃ البعد لما فیہ من ترک العمل بہا اقتضاہ ظاہر العطف من التشریک بین الرؤس و الارجل فی المسح من غیر ضرورۃ ۔

بعید ترین تاویلات میں سے ان لوگوں کا قول ہے جو وضو میں پاؤں دھونے کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فرمان وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ میں میں مراد دھونا ہے۔ یہ بات انتہائی بعید ہے چونکہ اس میں بلا ضرورت اس عطف کے تقاضے کو ترک کرنا لازم آتا ہے جس سے پاؤں کو سروں کے ساتھ شریک کرنا ظاہر ہوتا ہے۔

ابن عباس کا یہ قول بھی مشہور ہے:

الی الناس الا غسل و لا اجد فی کتاب اللّٰہ الا مسح ۔ (اشرف علی تھانوی:بیان القرآن ۱: ۳۵۸)

لوگوں کو دھونے پر اصرار ہے اور مجھے کتاب اللہ میں صرف مسح کا حکم ملتا ہے۔

اس جگہ بعض معاصر لکھنے والوں کے بارے میں چند جملے کہنے پر مجبور ہوں:

انا بلینابقوم لا یتمتعون بکفاء ۃ علمیۃ ولا امانۃ فی النقل و لا حاجز من تقوی اﷲ و لا متانۃ فی التعبیر و لا رصانۃ فی الفہم و یأتون الی کلام اﷲ یفسرونہ فیاتون بالاعاجیب و الاکاذیب انظر الی قول بعضھم حول ھذہ الایۃ حیث یقول بکل وقاحۃ ۔

بعض لوگوں نے اس کو مسح کے تحت داخل کیا ہے، لیکن یہ قول متواتر قرائت اور متواتر سنت کے خلاف ہے اور عربیت کے بھی۔ (تدبر قرآن ۲: ۴۶۹)

شِنْشَنَۃٌ اَعْرِفُہا مِنْ اَحْزَمِ ۔

روح المعانی کے افتراء ات بھی یہاں قابل مطالعہ ہیں اور ساتھ تفسیر المنار کی سرزنش بھی کہ صاحب تفسیر روح المعانی نے شیعوں پر بے جا الزام تراشی کی ہے۔

قرآن سے مسح کے ثبوت کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آتے ہیں۔

سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رد و قبول کے لیے معیار قرآن ہے۔ جو قرآن کے مطابق ہے وہ قابل قبول ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

۱۔ رفاعہ بن رافع راوی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

انھا لاتتم صلاۃ لاحد حتی یسبغ الوضوء کما امرہ اﷲ تعالی یغسل وجہہ ویدیہ الی المرفقین و یمسح برأسہ و رجلیہ الی الکعبین ۔ (سنن ابی داؤد ۱: ۲۲۷۔ حدیث نمبر ۳۵۶۔ سنن ابن ماجہ ۱: ۱۵۶۔ حدیث ۴۶۰۔ سنن نسائی ۲: ۲۲۵)

تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوتی، جب تک وضو اسی طرح بجا نہ لائے جس طرح اللہ نے حکم فرمایا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر اور دونوں پاؤں کا ٹخنوں تک مسخ کرے۔

۲۔ اوس بن ابی اوس راوی ہے:

انہ رأی النبی اتی کظامۃ قوم بالطائف فتوضأ و مَسَحَ عَلی قَدَمَیْہ ۔

رسول کریم طائف میں کسی قوم کے پانی کے پاس تشریف لائے، پھر وضو فرمایا اور دونوں پاؤں کا مسح کیا۔

دوسری روایت میں آیا ہے۔

و مسح علی نعلیہ و قدمیہ ۔ (سنن ابی داؤد ۱: ۴۱۔ حدیث نمبر ۱۶۰۔ تفسیر طبری ۶: ۸۶۔ نیل الاوطار ۱: ۲۰۹)

اور دونوں نعلین اور پاؤں پر مسح کیا۔

۳۔ عباد ابن تمیم کی روایت ہے:

ان النبی (ص) مسح علی القدمین و ان عروۃ کان یفعل ذلک ۔ (اسد الغابۃ ۱: ۲۱۷۔ نیل الاوطار ۱:۲۱۰۔ شرح معانی الآثار ۱: ۳۵)

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور دونوں پاؤں پر مسح کیا اور عروہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

دوسری روایت میں مسح علی رجلیہ ہے۔

۴۔ حضرت علی علیہ السلام نے مقام رحبہ میں لوگوں سے فرمایا:

کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وضو بتاؤں؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں!

فدعا بقعب فیہ ماء فغسل وجہہ و ذراعیہ و مسح علی رأسہ و رجلیہ و قال: ہذا وضوء من لم یحدث حدثاً ۔ (تفسیر ابن کثیر ۲: ۲۸۔ تفسیر طبری ۶: ۸۶)

چنانچہ حضرت علی ؑنے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس سے آپ ؑنے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھو لیے، پھر سر اور دونوں پاؤں پر مسح کیا، پھر فرمایا: یہ اس شخص کا وضو ہے جس نے کوئی تغیر نہیں کیا۔

یہاں سوال کیا جاتا ہے کہ لم یحدث کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا وضو ہے جس کے لیے حدث واقع نہیں ہوا۔ یعنی وضو ٹوٹا نہیں تھا۔

جواب یہ ہے کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ لم یحدث کا مطلب ’’تغیر نہیں کیا‘‘ ہے۔

پہلا قرینہ: قال للناس لوگوں میں اعلان ہے۔ جو پہلے سے وضو پر ہے، اس کے لیے جدید وضو کے لیے لوگوں میں کسی اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسرا قرینہ: الا ادلکم علی وضوء رسول ﷲ (ص)۔ کیا میں تمہیں رسول اللہ کا وضو نہ بتا دوں ؟

اس سے معلوم ہوتا ہے جو واجب وضو ہے، اس کا بیان ہے۔ واجب وضو اور غیر واجب کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ واجب وضو کے لیے پاؤں دھونا ہے اور غیر واجب مستحب وضو کے لیے مسح کرنا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

ما نزل القرآن الا المسح ۔ (التہذیب ۱: ۶۳۔ الدر المنثور ۲: ۲۶۲)

قرآن میں صرف مسح کا حکم نازل ہوا ہے۔

۵۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

نزل القرآن بغسلین و مسحین ۔ (تفسیر ابن کثیر ۲ : ۲۷۔ التہذیب ۱: ۶۳)

قرآن میں دو دھونے اور دو مسح کا حکم نازل ہوا ہے۔

۶۔ حضرت عثمان سے بھی مسح کی روایت آگے آنے والی ہے۔

سوال: قرآن نے کہا ہے سر کا مسح کرو، آپ حضرات سر کے ایک حصے کا مسح کیوں کرتے ہیں؟

جواب: برؤسکم میں’با‘ کی وجہ سے۔ چونکہ یہ ’ ا تبعیض کے لیے ہے۔ ( المبسوط للسرخسی باب الاقرار بالعاریۃ ) چونکہ امسحوا مفعول کی طرف متعدی ہونے کے لیے ’با‘ کا محتاج نہیں ہے، یہ خود معتدی ہے اور بغیر ’با‘ کے کلام درست ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود ’با‘ کا ذکر بتاتا ہے کہ یہ کسی مفہوم پر دلالت کے لیےہے اور وہ تبعیض ہے۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے:

ان رسول ﷲ (ص) توضأ فمسح الناصیۃ ولم یمسح الکل ۔ (احکام القرآن جصاص ۲: ۳۴۲ الکشاف ۱: ۶۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور پیشانی کے حصے کا مسح کیا، سب کا مسح نہیں کیا۔

۷۔ انس بن مالک، موسی بن انس نے اپنے والد کو بتایا:

حجاج نے لوگوں کو وضو میں پاؤں دھونے کے لیے کہا ہے۔

دوسری روایت میں آیا ہے:

حجاج نے اہواز میں خطبہ دیا اور لوگوں کو پاؤں دھونے کا حکم دیا تو انس بن مالک نے کہا:

صدق اﷲ و کذب الحجاج قال اﷲ تعالی و امسحوا برؤسکم و ارجلکم ۔ (تفسیر طبری۶: ۸۲۔ تفسیر ابن کثیر الجامع لاحکام القرآن ۶: ۹۲)

اللہ نے سچ فرمایا۔ حجاج نے جھوٹ بولا۔ اللہ فرماتا ہے: اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو۔

۸۔ حضرت انس کی یہ روایت بھی ہے کہ انہوں نے کہا:

نزل القرآن بالمسح ۔ (تفسیر ابن کثیر ۲: ۴۴)

قرآن مسح کے حکم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔

۹۔ عبد اللہ بن عمر سے راویت ہے:

توضأ و نعلاہ فی قدمیہ مسح ظہور قدمیہ بیدیہ ویقول کان رسول اﷲ یصنع ھکذا ۔ (شرح معانی الآثار ۱: ۳۵)

انہوں نے جوتا پہن کر وضو کیا اور پاؤں کی پشت پر مسح کیا پھر کہا: رسول اللہ(ص) اسی طرح کرتے تھے۔

وضو میں اختلاف کب پیدا ہوا؟: اس سلسلے میں علامہ سید علی شہرستانی کی گرانقدر کتاب وضوء النبی سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:

عہد ابی بکر اور عہد عمر میں وضو کے بارے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ اگر عہد حضرت عمر میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف موجود ہوتا تو حضرت عمر اس میں اپنا مؤقف پورے شد و مد سے پیش کرتے۔

حضرت عثمان کے دور خلافت میں وضو میں اختلاف پیدا ہوا۔ چنانچہ متقی ہندی ابی مالک دمشقی سے یہ بات نقل کرتے ہیں:

حدثت ان عثمان بن عفان اختلف فی خلافتہ فی الوضوء ۔ (کنز العمال ۹: ۴۴۳۔ حدیث ۲۶۸۹۰)

مجھے بتایا گیا ہے کہ عثمان بن عفان کے دور خلافت میں وضو میں اختلاف پیدا ہو گیا۔

حمران راوی ہیں:

اتیت عثمان بن عفان بوضوء فتوضأ ثم قال: ان ناساً یتحدثون عن رسول اﷲ (ص) باحادیث لا ادری ماہی الا انی رئیت رسول اﷲ توضأ مثل وضوئی۔ ثم قال: من توضأ ھکذا غفرلہ ماتقدم ۔ (صحیح مسلم ۱: ۲۰۷، باب فضل الوضوء)

میں عثمان بن عفان کی خدمت میں وضوکے وقت پہنچا تو انہوں نے وضو کیا پھر کہا: کچھ لوگ رسول اللہ ؐسے احادیث بیان کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا وہ کیا ہیں، مگر یہ میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا ہے، وہ اسی طرح وضو کر رہے تھے جیسے میں نے کیا ہے۔ پھر کہا: جو اس طرح وضو کرے گا، اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔

صحیح مسلم کی اس روایت سے دو قسم کے وضو کا پتہ چلتا ہے: حضرت عثمان کا وضوء اور ’ ناس ‘ لوگوں کا وضو۔

یہاں مسئلہ دو حال سے خالی نہیں ہے:

i۔ یا تو حضرت عثمان سے پہلے لوگ وضو میں پاؤں دھویا کرتے تھے۔ حضرت عثمان کے زمانے میں مسح کا نظریہ وجود میں آیا۔

ii۔ یا حضرت عثمان سے پہلے لوگ مسح کیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان کے زمانے میں دھونے کا نظریہ نظریہ وجود میں آ گیا۔

دلائل اور شواہد کی روشنی میں دوسری صورت ثابت ہو جاتی ہے:

پہلی دلیل یہ ہے کہ اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں خود حضرت عثمان پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں دو روایات ہیں:

پہلی روایت:

عن حمران قال دعا عثمان بماء فتوضاً ثم ضحک فقال الاتسئلون مم اضحک؟ قالوا یا امیر المؤمنین ما اضحک؟ قال: رأیت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم توضأکما توضأتُ فمضمض و استنشق وغسل وجہہ ثلاثا و یدیہ ثلاثاً و مسح برأسہ وظہر قدمیہ ۔ (کنز العمال ۹: ۴۳۶ حدیث ۲۶۸۶۳)

حمران راوی ہے کہ عثمان نے پانی مانگا، پھر وضو کیا پھر ہنس دیئے۔ کہا: کیا تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں کس چیز سے ہنس رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین کس چیز نے ہنسایا؟ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی وضو کر رہے تھے جیسے میں نے وضو کیا۔ منہ میں پانی ڈالا، ناک میں پانی ڈالا، چہرے کو تین مرتبہ دھویا، دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اور سر کا اور دونوں پاؤں کی پشت کا مسح کیا۔

دوسری روایت:

عن حمران قال: رأیت عثمان دعا بماء فغسل کفیہ ثلاثاً ومضمض واستنشق و غسل وجہہ ثلاثا وذراعیہ ثلاثا ومسح برأسہ و ظہر قدیہ ۔۔۔۔ (کنز العمال ۹: ۴۴۲۔ حدیث ۲۶۸۸۶)

حمران سے روایت ہے کہ میں نے عثمان کو دیکھا کہ پانی طلب کر رہے ہیں۔ پھر اپنی دونوں ہتھیلیاں دھو لیں تین بار، پھر منہ میں پانی ڈالا اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ دھویا تین بار اور دونوں ہاتھ دھوئے تین بار پھر سر کا اور دونوں پاؤں کی پشت کا مسح کیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مسح پر عمل ہوتا رہا۔ عصر عثمان میں دھونے کا نظریہ پیدا ہو گیا۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ اصحاب میں وضو کے بارے میں سب سے زیادہ روایت حضرت عثمان کی طرف سے ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ کی طرف سے کل ۵۳۷۴ احادیث روایت ہیں جو سب سے زیادہ ہیں لیکن وضو کے بارے میں ایک روایت بھی نہیں ہے اور عبد اللہ بن عمر اور انس بن مالک کی دو ہزار سے زائد روایات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث بھی وضو کے بارے میں نہیں ہے۔

جب کہ حضرت عثمان کی کل روایات ۱۴۶ سے زیادہ نہیں ہیں، لیکن وضو کے بارے میں ان کی روایات بیس سے زائد ہیں۔ اس سے معلوم ہوا، وضو میں پاؤں کو دھونے کا مسئلہ بعد میں پیدا ہوا ہے۔ حضرت عثمان نے نہیں کہا کہ مسح والا وضو بدعت، باطل اور خلاف شریعت ہے۔ صرف لا ادری ما ھی کہنے پر اکتفا کیا۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے: عصر رسالتؐ سے لے کر عصر عثمان تک جو وضو رائج تھا، آج عثمان کے دور میں اس میں تبدیلی لائی جائے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں اور اس جدید وضو کو رائج ہونے دیا جائے، بعید از قیاس ہے۔

جواب: مقولہ ہے لیست ھذہ اول قارورۃ کسرت ۔ یہ پہلی شیشی نہیں ہے جو ٹوٹ گئی۔ یہاں بہت سی شیشیاں چور چور ہو گئی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

i۔ منیٰ میں سفر میں چار رکعت نماز پڑھائی گئی۔

ii۔ فدک مروان بن حکم کو دے دیا گیا۔

iii۔ جمعہ کے دن تیسری اذان کا اضافہ کیا گیا۔

iv۔ عیدین میں خطبہ نماز سے پہلے کر دیا گیا۔

دیگر بہت سی تبدیلیاں عہد عثمان میں لائی گئیں۔

خادم رسول حضرت انس بن مالک کہتے ہیں:

ما اعرف شیئاً مما کان علی عہد النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قیل: الصلوۃ؟ قال: الیس ضعیتم ما ضعیتم فیھا ۔

میں عہد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی چیز کو نہیں پہچانتا جو برقرار ہو۔ کہا گیا: نماز (تو برقرار ہے نا) کہا: کیا تم نے جو کچھ ضائع کرنا تھا اس کو نماز میں ضائع نہیں کیا۔

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا: اور اگر تم حالت جنابت میں ہو تو نماز کے لیے پاک ہو جاؤ۔ یعنی غسل کرو۔ چنانچہ سورہ نساء آیت ۴۳ میں فرمایا ہے کہ جنب کو غسل کرنا چاہیے: وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا اس کے بعد فرمایا : اگر تم نے رفع حاجت کیا ہو یا عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اور سفر یا بیماری کی وجہ سے پانی کا استعمال میسر نہ ہو تو خاک پر تیمم کرو۔ اس کی تفصیل سورہ نساء آیت ۴۳ میں گزر چکی ہے۔

لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ: ’’اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔‘‘ اس جملے اور سورہ حج کی آیت ۷۸ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ سے ایک کلی حکم سامنے آتا ہے کہ جب کوئی حکم مکلف کے لیے باعث عسر و حرج اور غیر معمولی مشقت کا باعث بن جاتا ہے، وہ حکم اس کے حق میں منتفی ہو جاتا ہے جسے قاعدۂ لا حرج کہتے ہیں۔ مثلاً وضو اور غسل میں پانی کے استعمال میں بیماری وغیرہ کی وجہ سے غیرمعمولی مشقت درپیش ہو تو وضو اور غسل کا حکم منتفی ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک ممکن اور آسان عمل واجب ہو جاتا ہے، وہ تیمم ہے یا بغیر کسی بدل کے وہ حکم منتفی ہو جاتا ہے۔ مثلاً بھوک سے مرنے کا خوف ہو تو مردار کھانے کی حرمت، پیاس سے مرنے کا خوف ہو اور پانی میسر نہ ہو تو شراب پینے کی حرمت منتفی ہو جاتی ہے اور اس قاعدۂ لاحرج سے بہت سے احکام کا استنباط کیا جاتا ہے۔

وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ: بلکہ اللہ تمہیں پاکیزہ بنانا چاہتا ہے۔ وضوء اور غسل کو پانی ہونے کی صورت میں واجب کر کے پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم واجب کر کے تم کو ظاہری و باطنی کچیل سے پاک بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

ان الوضوء یکفر ما قبلہ ۔ (مجمع البیان)

وضو بجا لانے سے اس سے پہلے (کے گناہوں) کا کفارہ ہو جاتا ہے۔

وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ: وضو اور غسل کے ذریعے تمہیں پاک بنا کر تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔

لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ: وضوء اور غسل جیسی نعمت کی قدر دانی کرو اور شکر ادا کرو۔

احادیث

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عہد عمر میں مسح خفین میں اختلاف کیا۔ لوگوں نے کہا: ہم نے خود رسول اللہؐ کو خفین (موزوں) پر مسح کرتے دیکھا ہے تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے یا بعد میں؟ کہا: یہ ہم نہیں جانتے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

و لکنی ادری ان النبی ترک المسح علی الخفین حین نزلت المائدۃ۔ (المیزان۶: ۲۳۴)

میں جانتا ہوں کہ رسول خدا ؐنے موزوں پر مسح کرنا چھوڑ دیا تھا جب مائدہ نازل ہوا۔

واضح رہے کہ مسح علی الخفین اہل سنت کے ہاں ایک مسلمہ ہے اور صحابہ کی ایک کثیر تعداد کی روایت بھی موجود ہے۔ امامیہ کا مؤقف عترت طاہرہ کی اتباع کرتے ہوئے یہ ہے کہ مسح علی الخفین کا حکم سورہ مائدہ کی آیت وضو سے منسوخ ہوا ہے اور صحابہ کی روایت منسوخ ہونے سے قبل سے متعلق ہے۔

صاحب تفسیر المنار یہاں بجا طور پر پریشان ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

و العقبۃ الکؤود فی ہذہ المسئلۃ نسبۃ القول بعدم اجزاء المسح علی الخفین الی جمیع العترۃ المطہرۃ ۔ (المنار ۶: ۲۳۸)

اس مسئلہ میں نہایت مشکل رکاوٹ یہ ہے کہ مسح علی الخفین جائز نہ ہونے کی بات تمام عترت مطہرہ کی طرف منسوب ہے۔

بعد میں ایسے تاویلات ظنیہ بلکہ وہمیہ سے اس کی توجیہ کرتے ہیں جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔


آیت 6