آیات 18 - 19
 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً یَّاۡخُذُوۡنَہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور وہ بہت سی غنیمتیں بھی حاصل کریں گے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

حدیبیہ میں جب یہ خبر اڑی کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے قتل کر دیا ہے۔ اس صورت میں مکہ والوں نے حرمت کے مہینے میں جنگ کی ہے۔ مسلمانوں کو بھی جنگ کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک درخت کے نیچے مسلمانوں سے اس بات پر بیعت لی گئی کہ جنگ سے فرار نہیں ہوں گے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ یہ بیعت، موت کی بیعت تھی۔

۱۔ لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ان بیعت کرنے والوں کے قلب میں جو جذبہ ایثار و قربانی موجزن تھا اس بنا پر اللہ نے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبہ:۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے،

۲۔ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ: چونکہ اصحاب بیعت اس وقت صادق الایمان ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار اور خلوص کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اس لیے وہ اللہ کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے بالاتر کوئی کامیابی نہیں۔

۳۔ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ: اس خطرناک صورت حال میں ایک ایسا سکون و اطمینان حاصل تھاکہ لشکر والوں میں سے ہر ایک کے پاس میں صرف ایک تلوار اور احرام کا لباس ہے اور دشمن صرف ۱۳ میل کے فاصلے پر ہے ۔ اپنا وطن جہاں سے کمک آ سکتی ہے ڈھائی سو میل دور ہے۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ سکون ان لوگوں پر نازل ہوا جن کے بارے میں اللہ کو علم تھا کہ وہ وفاداری کریں گے۔ ( الدرالمنثور ۶:۷۴)

۴۔ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا: قریبی فتح سے مراد فتح خیبرہے جو صلح حدیبیہ کے چند ماہ بعد واقع ہوئی۔

۵۔ وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً: کثیر مقدار میں غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے چونکہ خیبر کی غنیمت وافر مقدار میں تھی اور یہ غنیمت صرف حدیبیہ میں حاضر لوگوں کے لیے مخصوص تھی۔ بعض ازواج رسولؐ نے فرمایا تھا کہ خیبر کی فتح کے بعد ہم نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔

یہ بات درست ہے اللہ کی طرف سے سند خوشنودی عطا ہونے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا مقابلہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔

البتہ یہ بات ذہن میں رہے یہ بیعت جنگ سے فرار نہ ہونے کا ایک عہد تھی۔ اگر بعد میں کسی نے عہد شکنی کی تو اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ شروع سے رضایت الٰہی حاصل کرنے والوں کی اس صف میں شامل ہی نہ تھا۔ چنانچہ بیعت رضوان کے ذکر میں آیت ۱۰ میں فرمایا:

فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ۔۔۔۔

پس جو عہد شکنی کرتا ہے وہ اپنے ساتھ عہد شکنی کرتا ہے۔

چنانچہ جنگ حنین میں حضرت ابن عباس کو فرار ہونے والوں کو بیعت رضوان کا حوالہ دے کر بلانا پڑا۔ متعدد روایات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حدیبیہ میں منافقین بھی موجود تھے۔ چنانچہ رسولؐ کے فیصلے پر اعتراض کرنے والوں میں رئیس منافقین عبد اللہ بن ابی کا ذکر آتا ہے ( روح المعانی ذیل آیۃ لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ۔۔۔۔ ) نیز ابوالغادیۃ بھی بیعت رضوان میں حاضر تھا جس نے جنگ صفین میں حضرت عمارؓ کو قتل کیا اور جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ثابت ہے:

عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ۔ ( الاحتجاج ۱: ۱۸۱)

عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

اور قاتل عمار کے بارے میں یہ حدیث بھی صحیح السند ہے:

قاتل عمار و سالبہ فی النار۔ ( سلسلۃ الادیث الصحیحۃ ۔ ۵: ۱۸ طبع ریاض۔ الجمل ص ۱۰۳)

عمار کا قاتل اور اس کا سامان (حرب) لوٹنے والا آتش میں ہو گا۔

اس بیعت کے وقت اللہ تعالیٰ کو ان کے مستقبل کی خبر تھی تو فرمایا: فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ۔ لہٰذا یہ کہنا نہایت ناانصافی ہے کہ کیا اللہ کو خبر نہ تھی کہ ان بے وفاؤں کو پروانہ خوشنودی عطا کیا!!

جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی لوگ اس کے پاس جا کر نمازیں پڑھنے لگے تو حضرت عمر نے اس درخت کو کٹوا دیا۔ ( طبقات ابن سعد ) البتہ یہ روایات بھی ہیں کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد اصحاب نے اس درخت کو تلاش کیا مگر وہ اسے پہچان نہ سکے۔

اہم نکات

۱۔ بیعت رضوان میں شرکت کرنے اور اس بیعت کو نہ توڑنے والوں پر اللہ راضی ہے۔ ہمیں ان پر راضی ہونا اور اس فضیلت کو یاد رکھنا ہو گا۔


آیات 18 - 19